گیت نمبر:95 گیت:میں مریض لا دوا ہوں میری جان
شاعر:متفرق کمپنی:آر جی ایچ والیم:39
نہ پوچھ کیسے گذرتی ہے زِندگی اِے دوست بڑی طویل کہانی ہے پھر کبھی اِے دوست
سیاہ نصیب نہ مجھ سا بھی ہو زمانے میں تیرے بغیر گزرتی ہے چاندنی اِے دوست
میں مریض اِے لا دوا ہوں میری جان غلط کہا ہے
تیرا ہنس کے دِیکھ لینا میرے دَرد کی دُعا ہے
وہ ہے جلوہ گاہے جاناں مجھے دوستو سنبھالو میرے پاؤں کانپتے ہیں میرا دِل دَھڑک رَہا ہے
نہ وہ رُت جوانیوں کی نہ وہ رنگ بزمِ یاراں وہ بہار لٹ چکی ہے وہ چمن اُجڑ گیا ہے
کبھی مِل گئی جو خلوت
جھُکتی ہے ہر قدم پہ جبین تیرے شہر میں ہر بُت کہیں خدا تو نہیں تیرے شہر میں
کوئی نہ دِیکھ پایا میرے دِل کا آئینہ کوئی بھی آنکھ والا نہیں تیرے شہر میں
کبھی مل گئی جو خلوت مجھے دِی اَگر اجازت
وہی زلف چوم لوں گا مجھے جس نے ڈس لیا ہے
کسی بُت سے پیار کرنا
ہم بتوں کو جو پیار کرتے ہیں نقلِ پروردگار کرتے ہیں
اور نیکیاں پارسا نہیں کرتے نیکیاں بادا کار کرتے ہیں
کسی بُت سے پیار کرنا ہے اگرچہ کفر ہے زاہد اِسی کُفر سے تو مجھ کو باخدا خدا ملا ہے
تیرے غم کو دِل میں پالا یہ وفا کی اِبتدا تھی
تیرے غم میں جان دِے دِی یہ وفا کی اِنتہا تھی
تیرا نام سُن کے جاناں تیری دِید کی لگن میں
کوئی طُور پر گیا کوئی دار پر چڑھا ہے
نہیں فرق آب و گل میں مگر اَپنی اَپنی قسمت
کوئی پھول بن کے مہکا کوئی خار بَن گیا ہے
کبھی سو گئی ہیں نبضیں کبھی دَرد جاگ اُٹھا ہے
میرے جی سے کوئی پوچھے شبِ غم بُری بلا ہے
|