گیت نمبر:94 گیت:یہ جوانی شباب اور راتیں بے نقاب آنا
شاعر:متفرق کمپنی:آر جی ایچ والیم:93
خدا بھی آئے تو اِتنا حسین نہ ہو ثابت کچھ اِس اَدا سے وہ زُہرا جمال آتا ہے
دِل اِتنا خوش ہے اُنہیں پہلو میں پا کے کہ جیسے چور کے قبضے میں مال آتا ہے
یہ جوانی شباب اور رَاتیں بے نقاب آنا اَچھا نہیں ہے
کیونکہ محفل ہے یہ دل جلوں کی یہاں کسی پہ بھروسہ نہیں ہے
تِرچھی تِرچھی نظر کے میں قربان تیری آنکھیں ہیں یا مہہ کے پیالے
جس کو تو (تُم) نے نظر سے پلایا اُس کو پھر ہوش آیا نہیں ہے
جب سے دِیکھا ہے جلوہ تمھارا کوئی آنکھوں میں جچتا نہیں ہے
لاکھ دِیکھے یہاں حُسن والے کوئی عالم میں تجھ سا نہیں ہے
آس دَا کا سا ہو گیا خالی صدقہ پیار کیسے دا عمر تمامی بن کے پلے قول قرار کسے دَا
پین تھی توبہ رَبا کرنا تُو وِی کر اِک وَعدہ حال بُرا نہ میں جیا کرسی وچ سنسار کسے دَا
لکھ واری ہُن بن تھن کے کوئی راواں وچ کھلووے دل مظہر دا موہ نہیں سَکدا ہار سنگھار کسے دَا
لاکھ دِیکھے یہاں حُسن والے کوئی عالم میں تجھ سا نہیں ہے
عاشقی کا تقاضا یہی ہے ہم نہ بدلیں نہ تم ہم سے بدلو
ساقیا میری عقیدت کو نہ دھوکا دینا میں تیری آنکھ کی نیت خبردار نہیں
اور سوچ لو راہ میں نہ مجھ کو پریشان کرنا راستہ زیست کا کہتے ہیں کہ ہموار نہیں
عاشقی کا تقاضا یہی ہے ہم نہ بدلیں نہ تم ہم سے بدلو
تم تو ایسے بدلنے لگے ہو آج تک کوئی بدلا نہیں ہے
آئے ہو آکے جانے لگے ہو یہ بھی کیا دل لگی دل لگی ہے
اِے اَج دِی رَات گزاری جا ماہی میکوں رَت دِے نیر رَوا نہیں
کئی خفیا راز آ ساڈے ہن ایویں غیراں کوں سنوا نہیں چھوڑ کے جا نہیں
اَج آیا ہیں کل ٹرویسی ایہا دَاغ جگر کوں لا نہیں چھوڑ کے جا نہیں
گلشن دِیاں منتاں من گِن ماہی اِس دَم دَا کوئی وَساہ نہیں چھوڑ کے جا نہیں
آئے ہو آکے جانے لگے ہو یہ بھی کیا دل لگی دل لگی ہے
اَب خدا کے لئے تم نہ جاؤ میں نے جی بھر کے دِیکھا نہیں ہے
آئے ہو آ کے جانے لگے ہو یہ بھی کیا دِل لگی دِل لگی ہے
آرزو یہ ہے کہ اُن کی ہر نظر دیکھا کریں وہی اَپنے سامنے ہوں ہم جدھر دِیکھا کریں
اِک طرف ہو ساری دُنیا اِک طرف صورت تیری ہم تمیں دُنیا سے ہو کر بے خبر دیکھا کریں
اَب خدا کے لئے تم نہ جاؤ میں نے جی بھر کے دِیکھا نہیں ہے
میں نے پوچھا کہ پھر کب ملو گے پہلے شرمائے پھر ہنس کے بولے
تم تو دِل میں سمائے ہوئے ملنے کی ضرورت نہیں ہے
شیشہ پتھر سے ٹکرا کے ٹوٹا ٹوٹنے کی صدا سب نے سُن لی
ملا نہ دِل کا قدر دَان زمانے میں یہ شیشہ ٹوٹ گیا دِیکھنے دِکھانے میں
شیشہ پتھر سے ٹکرا کے ٹوٹا ٹوٹنے کی صدا سب نے سُن لی
دل کسی کا اگر ٹوٹ جائے. . . . .
توڑ کر دِیکھ لیا آئینہ دِل تو نے بتا تیری صورت کے سوا کیا نکلا
شیشہ پتھر سے ٹکرا کے ٹوٹا ٹوٹنے کی صدا سب نے سُن لی
سوچ لو دِل لگانے سے پہلے لوگ بدنام کر دیں گے تم کو
د دوست میڈے اِک گل یاد رکھیں تے میٖڈی یاد نوں دِلوں بھلاوناں نہیں
میڈی موت دِی خبر جد پہنچی جلدی آویں تے سجنڑاں شرمانٹرواں نہیں
آویں قبر اُتے تیڈی مہربانی پر لے کے نال رقیباں نوں آوناں نہیں
جیویں زندہ جلایا اِی یار مینوں مسلمان ہاں مردہ جلانواں نہیں
سوچ لو دِل لگانے سے پہلے لوگ بدنام کر دیں گے تم کو
میں نے عصمت فروخت کر ڈالی ایک فاقے کو ٹالنے کے لیے
اَرے لوگ زیداں کو بھی بیچ دِیتے ہیں اَپنا مطلب نکالنے کے لیے
پیار کو چاہے جتنا چھپاؤ یہ چھپانے سے چھپتا نہیں ہے
لوگ چلتے ہیں کانٹوں سے بچ کر میں بچاتا ہوں پھولوں سے دَامن
اِس قدر کھائے ہیں میں نے دُھوکے
کانٹوں سے دِل لگائے تا عمر ساتھ دیں پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہہ سکیں
اِس قدر کھائے ہیں میں نے دُھوکے اَب کسی پہ بھروسہ نہیں ہے
آئے ہو آ کے جانے لگے ہو یہ بھی کیا دِل لگی دِل لگی ہے
اب خدا کے لیے تم جاؤ نہ میں نے جی بھر کے دِیکھا نہیں ہے
یہ جوانی شباب اور راتیں
تِرچھی تِرچھی نظر کے میں قربان تیری آنکھیں ہیں یا مہہ کے پیالے
جس کو تم نے نظر سے پلایا
بس کے دِل وِچ سوھنا ماہی نہیں سجدیاں بےپروایاں
جہیڑے دِن توں لگیاں اَکھیاں اَساں اَکھیاں مول نہ لائیاں
اِے گل گئی گُل گُل سجری جوانی پہ گیاں منہ تے چھائیاں
عتیلؔ بےکس لاچار دِیاں ہن تاں من گن یا جیکایاں
جس کو تم نے نظر سے پلایا اُس کو پھر ہوش آیا نہیں ہے
|