تم بھول گے ہو چن ماہی اَب تم کو یاد دلاؤں کیا
جو بیت گیا تم بن مجھ پر وہ اَفسانہ دوہراؤں کیا
اَب چاندنی رَاتوں میں اَکثر میں گھر میں تنہا رہتا ہوں
جو باتیں تم سے کہتا تھا اَب دِیواروں سے کہتا ہوں
جو کہنا تھا وہ کہہ تو دِیا اَب اور تم میں سمجھاؤں کیا
اَب سینے میں جب دَرد اُٹھے تو میں اکثر چُپ رہتا ہوں
پہلے تھے تم ہمدرد میرے اَب اَپنے دُکھ خود سہتا ہوں
سب لوگ یہاں بیگانے ہیں غیروں کو حال بتاؤں کیا
تنہائی ستا نے لگتی ہے تو دِل کو یوں بہلاتا ہوں
جو تم کو سنایا کرتا تھا پھر گیت وہی میں گاتا ہوں
ہے گیت وہی اَب میت میرا اب اس کے علاوہ گاؤں کیا
تصویر تمھاری ہاتھ میں لے کے یادوں میں کھو جاتا ہوں
شانے یہ تمھارے سر رکھ کر پہلے کی طرح سو جاتا ہوں
اب تم ہی کہو دِلدار میرے ہر عادت بھول ہی جاؤں کیا
|