آتشِ اے آفتاب پیتا ہوں غیرتِ مہتاب پیتا ہوں
دُنیا والوں نے مار ڈالا ہے انتقاماً شراب پیتا ہوں
شراب تو چیز ہی اِیسی ہے نہ چھوڑی جائے یہ میرے یار کے جیسی ہے نہ چھوڑی جائے
ہر ایک شے کو زمانے میں بدلتے دیکھا ہے مگر یہ ویسی کی ویسی ہے نہ چھوڑی جائے
یہ میرے یار کے جیسی ہے نہ چھوڑی جائے
اِسی کے دَم سے پگھلتی ہیں یہ بوجھل رَاتیں مگر یہ پانی کے جیسی ہے نہ چھوڑی جائے
یہ میرے یار کے جیسی ہے نہ چھوڑی جائے
یہی تو ٹوٹے دِلوں کا علاج ہے انجمؔ میں کیا کہوں کہ یہ کیسی ہے نہ چھوڑی جائے
یہ میرے یار کے جیسی ہے نہ چھوڑی جائے
|