غزل میں بندو شو الفاظ ہی نہیں کافی جگر کا خون بھی کچھ چاہئے اَثر کیلئے
پڑی ہے کیا تم میں چُھپ چُھپ کے یوں آنسو بہانے کی ہمارے نام کر دو تلخیاں سارے زمانے کی
میں برسوں زندگی کی آگ میں جل کر سلامت ہوں نئی صورت نکالو پھر کوئی مجھ کو مِٹانے کی
میری جانب. . . . . . .بہت صورت شعر ہے سامعین
میری جانب نہ مڑ کے دیکھنا جاتے ہوئے ہر گز تعاقب کر رہی ہیں دیر سے نظریں زمانے کی
دیارِ شوق میں قیصر سنبھل کے چل کے سنتے ہیں بہت عادت ہے دُنیا کو یوں ہی باتیں بنانے کی
آپ کی نظر شعر کرتا ہوں۔
تمھارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے میں ایک شام چُرا لوں اَگر بُرا نہ لگے
جو ڈوبنا ہے تو اِتنے سکون سے ڈوبو کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتہ نہ لگے
میں ایک شام چُرا لوں اَگر بُرا نہ لگے تمھارے شہر کا
ایک شعر کسی کی نظر کرتا ہوں۔
تمھارے بس میں ہو تو بھول جاؤ ہمیں تمھیں بھلانے میں شاید ہمیں زمانہ لگ
میں ایک شام چُرا لوں اَگر بُرا نہ لگے تمھارے شہر کا
نہ جانے کیا ہے کسی کی اُداس آنکھوں میں وہ منہ چھپا کے بھی جائے تو بےوفا نہ لگے
میں ایک شام چُرا لوں اَگر بُرا نہ لگے تمھارے شہر کا
ہمارے پیار سے جلنے لگی ہے اِک دُنیا دُعا کرو کسی دُشمن کی بددُعا نہ لگے
میں ایک شام چُرا لوں اَگر بُرا نہ لگے تمھارے شہر کا
|