کبھی ہم بھی تم میں اچھے لگے تھے تمھیں اب یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تمھارے پرس میں رہتی تھی اِک تصویر میری کہا کرتے تھے تم آپ تقدیر ہیں میری
وہ پیپل کی گھنی چھاؤں کے نیچے بیٹھ کر رونا کبھی میرا نہ چپ ہونا کبھی تیرا نہ چُپ ہونا
دئیے کی روشنی میں بیٹھ کر وہ رات تک پڑھنا سیاہی پھینکی اِک دُوجے پر اور دِیر تک رونا
کنارے نہر کے کشتی وہ اِک ٹوٹی ہوئی سی اکیلی کونج اِک اَپنے پیا سے روٹھی سی
میری جان اَب تمھیں گذرا زمانہ یاد کب ہو گا وہ ایک پاگل وہ ایک عاجزؔ دیوانہ یاد کب ہو گا
|