جو فسانے زیرِ لب تھے وہ سُنانے والے کب تھے
فہرستِ دُشمناں میں میرے اَپنے سب کے سب تھے
اَشکوں کا زہر پی کے تنہا بھی دِیکھا جی کے
ساتھی ہی زِندگی کے میری موت کا سبب تھے
جو فسانے زیرِ لب تھے وہ سُنانے والے کب تھے
دِن جتنے بھی گزارے بے آس بے سہارے
وَعدے وَفا تمھارے نہ اَب ہوئے نہ تَب تھے
جو فسانے زیرِ لب تھے وہ سُنانے والے کب تھے
گری آس کی عمارت جو نہ ہو سکی زیارت
پتوں کی تھی شرارت وہ گمان جو پچھلی شب تھے
جو فسانے زیرِ لب تھے وہ سُنانے والے کب تھے
نہیں اَب کسی کے لب پر جو سنا ہے زندگی بھر
میری جان جانِ دل بھر کبھی میرے بھی لقب تھے
جو فسانے زیرِ لب تھے وہ سُنانے والے کب تھے
موسم بڑا حسین تھا تو اَپنا ہے یقین تھا
غم دور تک نہیں تھا تیرے آس پاس جب تھے
جو فسانے زیرِ لب تھے وہ سُنانے والے کب تھے
|