تو نے کس دل کو دکھایا ہے تجھے کیا معلوم کس صنم خانے کو ڈھایا ہے تجھے کیا معلوم
ہم نے ہنس ہنس کے تیری بزم میں اے پیکر ناز کتنی آہوں کو چھپایا ہے تجھے کیا معلوم
قصور ضرور اے ساڈا ماہی تے تیڈے نال جو میں دل لایا
سہہ سہہ دکھ تیں ڈتتے نیں میکوں تیکوں ذرا وی ترس نہیں آیا
لا کے پریت تڑوڑ ڈتتو ہی ماہی کیدا ظلم کمایا
میں اُجڑے دی زندگی دا تیکوں ذرا وہ خیال نی آیا
نصیب چین کی اک دن بھی زندگی نہ ہوئی خوشی کی آس لگائے رہے خوشی نہ ہوئی
وہ بدنصیب شجر ہوں میں باغ اُلفت کا کہ جس کی شاخ جو سوکھی تو پھر ہرئی نہ ہوئی
روز ٹانکے اُدھیرے جاتے ہیں روز زخم جگر کو سیتا ہوں
جانے کیوں لوگ پڑنا چاہتے ہیں میں نہ قرآن ہوں نہ گیتا ہوں
میکدہ بن گئی مست آنکھیں
تیری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پھرتے ہیں
میکدہ بن گئی مست آنکھیں زُلف کالی گھٹا ہو گئی ہے
کیا ہو مہہ کا نشہ زندگی میں زندگی خود نشہ ہو گئی ہے
یہ نزاکت اُن کی تو دیکھے لیے زُلف خم شدہ ہاتھ میں
میرے پیچھے آئے دَبے دَبے مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا
اِے قادرِ مطلق دُنیا دا میڈے جرم کی کر تحقیق اے
تیکوں ویکھ کے میں وی پیار کیتا دِیدار دِی منگداں بھیک اے
میڈا کوئی نہیں دَرد ونڈاوے جو لوکیں ٹُر پودیویں گھبری کے
نہیں سنٹردا بابرؔ دُکھ کوئی چپ ہو وینداں جھڑکیں کے
ہر تبسم خفا ہو گیا ہے ہر مسرت جُدا ہو گئی ہے
کوئی جھانجھر سُٹ چھوڑی
چناں تیرے لاریاں تے اَساں عمراں وے کٹ چھوڑی
ہر تبسم خفا ہو گیا ہے ہر مسرت جُدا ہو گئی ہے
اِے غم ایں عشق تیری بدولت زندگی کیا سے کیا ہو گئی ہے
قریب موت کھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ قضا سے آنکھ لڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
پھر اِس کے بعد کبھی ہم نہ تم کو روکیں گے لبوں پہ سانس اَڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
میں اسیر و غم اے ہجر ٹھہرا اور اِس سے زیادہ کہوں کیا
محتاجِ توجہ اے شعر. . . . . . . . .
میں اسیر و غم اے ہجر ٹھہرا اور اِس سے زیادہ کہوں کیا
مجھ کو جرم محبت میں یارو عمر بھر کی سزا ہو گئی ہے
مجھ کو دِیوانہ سمجھتے ہیں تیرے شہر کے لوگ میرے دامن سے اُلجھتے ہیں تیرے شہر کے لوگ
اور کیا دوں میں تجھے اَپنی وفاؤں کا ثبوت اب میرے حال پہ ہنستے ہیں تیرے شہر کے لوگ
بے اجازت لبوں کو تمھارے چوم کر خود پشیمان ہوں میں
ہوش میں اتنی جُرات نہ ہوتی بےخودی میں خطا ہو گئی ہے
پہلے تو دِیکھنا مسکرانا پھر نظر پھیرنا رُوٹھ جانا
ہاتھ سینے پہ نہ رکھ کر کے دِکھاؤ مجھ کو میرے ٹوٹے ہوئے دِل کی صدا یاد کرو
میں نے مانا وفادار نہیں ہوں لیکن تم کسی اُور کو اِس طرح برباد کرو
جاؤ اَب تم سے مجھے کوئی سروکار نہیں اَب کسی اور کی دُنیا کی تم آباد کرو
پہلے تو دِیکھنا مسکرانا پھر نظر پھیرنا رُوٹھ جانا
ہو گیا خون کتنوں کا ناحق آپ کی تو ادا ہو گئی ہے
|