جھکایا تو پتھر صنم بن گئے عشق بھٹکا تو حق آشنا ہو گیا
رَشک کرتا ہے کعبہ میرے کفر پر میں نے جس بُت کو پوجا خدا ہو گیا
عمر ہے کہ معراج ہے عشق کی اِے جنون بول منزل یہ ہے کون سی
اُس کے گھر کا پتہ پوچھتے پوچھتے پوچھنے والا خود لاپتہ ہو گیا
سر جھکایا تو پتھر صنم
میں محبت سے منہ موڑ لیتا اَگر ٹوٹ پڑتی یہ بجلی کسی اور پر
مروں تو دَفن کرنا دوستو پھولوں کے چمن میں
میں بلبل ہوں میرا بھی حق ہے کچھ آغوش گلشن میں
دھو ڈال ورنہ رَنگ لائے گا سرِے محشر
جو میرا خون اِے قاتل بھرا ہے تیرے دَامن میں
فرشتوں اَتنی جلدی یا ہے پھر آنا بتا دوں گا
اِبھی تو میں تھکا ماندہ چلا آتا ہوں مدفن میں
میں محبت سے منہ موڑ لیتا اَگر ٹوٹ پڑتی یہ بجلی کسی اور پر
میرے دل کی تباہی سے یہ تو ہوا کم سے کم دوسروں کا بھلا ہو گیا
سر جھکایا تو پتھر صنم
کاروبارِ تمنا میں یہ تو ہوا اُن کے قدموں پر مرنے کا موقع مِلا
تجھے بےقرار کر کے تیری نیند تک اُڑا لوں اگر آؤں ضد پر سے کیا بنا لوں
میرے دل کو بھا گیا ہے یہ حسین غرور تیرا ادھر آؤ ناز والے میں تجھے خدا بنا لوں
میرا ذوق بندگی پھر ذوق بندگی ہے تو وہی پر میرا کعبہ میں جہاں پہ سر جھکا دوں
نہ سمجھ حقیر ظالم میرے غم کی بےبسی کو اُسے پُوجے ساری دُنیا میں جِسے خدا بنا لوں
کاروبارِ تمنا میں یہ تو ہوا اُن کے قدموں پر مرنے کا موقع مِلا
زندگی بھر و گھاٹا اُٹھاتے رہے آج پہلی دفعہ فائدہ ہو گیا
سر جھکایا تو پتھر صنم
وقت اِحباب پرچھائی سورج کرن لوگ دُنیا خوشی چاندنی زندگی
بے درد سجن دِے سانگے تُو کُل سانگے گھول گمائی بیٹھا
اِنج درد پیاریے ہن خوشیاں توں کائنات دے سُکھ ٹکرائی بیٹھا
نیئں آج تائیں ہُسڑ کے ہائے کیتی تے تینڈے کینڈے بے بھرم بنائی بیٹھا
اے موت نہ کھولی وَس شفقت ؔ دے اِے ویکھ لیں کفن سوائی بیٹھا آں
وقت اِحباب پرچھائی سورج کرن لوگ دُنیا خوشی چاندنی زندگی
میرے محبوب اِک تیرے غم کے سوا جو ملا راستے میں جُدا ہو گیا
سر جھکایا تو پتھر صنم
ایسا بھٹکا کہ لوٹا نہیں آج تک ایسا بچھڑا کہ آیا نہیں آج تک
دِن گزر جائیں گے اِے سرکار کوئی بات نہیں زخم بھر جائیں گے کوئی بات نہیں
آپ کا شہر اگر بھار سمجھتا ہے ہمیں ہم چلے جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
آپ کے جو رکا جب ذکر چڑا محشر میں ہم مُکر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
ایسا بھٹکا کہ لوٹا نہیں آج تک ایسا بچھڑا کہ آیا نہیں آج تک
دل بھی کم بخت ہے کس قدر باولہ آپ کے گھر گیا آپ کا ہو گیا
دَشت ہے دُھوپ ہے سوزِ اِحساس ہے مستقل پیاس تھی مستقل پیاس ہے
تُو قادر ہیں ہر چیز اُتھے میڈی اُجڑی جھوک وَسا چا
وددا رُلدا ہاں تیڈی دُنیا دِے وِچ تے میڈی بیڑی بن نے لاچا
ہی واسطہ اَپنی رحمت دا تے ایہو کر منظور دُعا چا
اقبالؔ نُوں جہڑا بُھل بیھٹا اِے اُوہا وچھڑیا یار ملا چا
دَشت ہے دُھوپ ہے سوزِ اِحساس ہے مستقل پیاس تھی مستقل پیاس ہے
اَب تو پینے کو آنسو بھی باقی نہیں میرا سینہ ظفرؔ کربلا ہو گیا
|