کِتنا دِل کش کا تھا وہ آغاز محبت کا سماں شدتِ شرم سے جب تیری نظر شرمائی
اور تُو نے اُنگلی پہ سیاہ زُلف لپیٹی جِس دم خود بخود جب تیرے ہونٹوں پہ ہسی آئی
اور اُن کی مخمور نگاہوں لے کرشمے توبہ پاکبازوں کو بھی مہہ خار بنا دیتے ہیں
اور پہ بہ پہ ظلم و ستم راہِ اِے محبت میں قمر اِیک اِنسان کو فنکار بنا دیتے ہیں
دُکھ لَا کے ساڈی جنڈری کُون خوش وَسدا اِیں نال شریکاں دے
او ہر دم اِک نُوں اِک جانن جیڑے مالک سچیاں نیتاں دے
تیڈا غیراں نال اے پیار ماہی تے ساڈے گل وچ غم دے ہار ماہی
کھا کے سچیاں قسماں بُھل ونجاں اے نہیں ہن قول شریفاں دے
ایں ویں نہیں سی مناسب یاراں نوں دُکھ دیں وناں دل دے پیاراں نوں
واہ واہ چنگیاں توڑ نبھایاں نی چنگے رکھے نی خیال پریتاں دے
تیرے بغیر کبھی چین سے بسر نہ ہوئی یہ اور بات کہ اِس کی تُجھے خبر نہ ہوئی
میں کہکشاں میں بھی تُجھ کو تلاش کر لیتا یہ کہکشاں بھی مگر تیری راہ گذر نہ ہوئی
بڑا عجیب تھا تیرے دیار کا رستہ کہ چاندی بھی وہاں میری ہم سفر نہ ہوئی
نہ حرم میں
نہ نماز آتی ہے اور نہ ہی وضو آتا ہے
سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تُو آتا ہے
نہ حرم میں نہ کلیساں میں نہ بُت خانے میں
چین ملتا ہے تو ساقی تیرے مہہ خانے میں
اللہ آ رے جبین شوق کے سجدوں کی سر کو جہاں جھکا دیا کعبہ بنا دیا
اور تُم ہمارے بنو نہ بنو ہے تُم کو اختیار تقدیر نے تو ہم کو تمھارا بنا دیا
چین ملتا ہے تو ساقی تیرے مہہ خانے میں
او دلبر پیار تیڈے وچ میڈا رات دا نیند آرام گیا
او جِس دِیں دِی تُساں جھوک لُٹی ساڈا لُٹیا سب سامان گیا
او اَکھیاں شودیاں رو ر و مکھیاں تے میڈا دِید تے ہوش دِھیان گیا
او ابراہیم باج دیدار شفا نہ کائی تھوڑے حکمت لکھ لقمان گیا
میں کوئی رند نہیں اِس لیے پیتا ہوں شراب
اگرچہ اِک زمانہ ہو گیا ترکِ تعلق کو تمھاری یاد اب بھی بار ہا تکلیف دیتی ہے
اگر تکلیف جائز ہو تو ہم سہہ لوں خاموشی سے گِلہ یہ ہے کہ دُنیا ناروا تکلیف دیتی ہے
میں کوئی رند نہیں اِس لیے پیتا ہوں شراب
تیری تصویر نظر آتی ہے پیمانے میں
رات لمبی بھی ہے اور تاریک بھی شب گذاری کا ساماں کرو دوستو
جانے پھر کب یہ ملنا مقدر میں ہو اپنی اپنی کہانی کرو دوستو
مُجھ کو معلوم ہے تُم بھی میری طرح جان و دل کوہ اِے اُلفت میں ہار آئے ہو
اب یہ بازی نئے سرے سے ممکن نہیں اپنا انجام خود سوچ لو دوستو
میں کوئی رند نہیں اِس لیے پیتا ہوں شراب
تیری تصویر نظر آتی ہے پیمانے میں
چین ملتا ہے تو
تسلیم کیتا اے میں عاسی آں ناواقف یار ادب نہیں
سوراں ہر ویلے تیں مالک نُوں میڈے کیں ویلے چُپ لب نہیں
میں شرف وصال توں قاصر آں کوئی بن دا سانب سبب نہیں
تیڈے عرش تے رحمت مُک گئی اے یا تُوں یاسینؔ دا رَب نہیں
دفن کرنا میری میت کو بھی مہہ خانے میں
رازِ دل کیوں نہ کہوں سامنے دِیوانوں کے یہ تو وہ لوگ ہیں اپنوں کے نہ بیگانوں کے
اور وہ بھی کیا دِن تھے اِدھر شام اُدھر ہاتھ میں جام اب تو رستے بھی رہے یاد نہ مہہ خانوں کے
دفن کرنا میری میت کو بھی مہہ خانے میں
تا کہ مہہ خانے کی مٹی رہے مہہ خانے میں
چین ملتا ہے تو
ملے گا کیا کِسی مجبور کو ستانے سے خدا کے واسطے باز آ جا دِل دُکھانے سے
تمام عمر کے رونے سے تو بہتر تھا کہہ میں باز رہتا اِک بار دِل لگانے سے
جب سے اُنہیں مائل باکرم دیکھ رہا ہوں ہر گام پہ اِک تازہ ستم دیکھ رہا ہوں
تصویر تیری جب سے میرے دِل میں بسی ہے واللہ میں کعبہ میں صنم دیکھ رہا ہوں
دفن کرنا میری میت کو بھی مہہ خانے میں
تا کہ مہہ خانے کی مٹی رہے مہہ خانے میں
چین ملتا ہے تو
ہوئی ختم جب سے وہ صحبتیں میرے مشغلے بھی بدل گئے
کبھی روئے شام کو بیٹھ کر کبھی میکدے کو ٹہل گئے
تیرا ہاتھ ہاتھ سے چُٹ گیا تو لکریں ہاتھ کی مِٹ گئیں
جو لکھا تھا وہ مِٹ گیا جو نصیب تھے وہ بدل گے
آؤ رِندوں میری توبہ کی زیارت کر لو
آنکھوں میں بس کر دیکھ دِلوں میں سما کے دیکھ کِتنے ہیں پُرسکوں یہ مقامات آ کے دیکھ
شاداب تو کیا تھا مُجھے اپنے قُرب سے اب فاصلوں کی آگ میں جلتا آ کے دیکھ
آؤ رِندوں میری توبہ کی زیارت کر لو
اَبھی کُچھ دِیر ہے مرحوم کے دفنانے میں
چین ملتا ہے تو
اَب تو اِتنی بھی میسر نہیں مہہ خانے میں
جب پڑا وقت گلستان پہ تو خون ہم نے دیا اَب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں
اور پی کر جو مست ہیں اُن کے لیے مہہ خانے ہیں اور پیاسوں کے مقدر میں کوئی جام نہیں
اَب تو اِتنی بھی میسر نہیں مہہ خانے میں
بڑھی جاتی ہے رسوائی جنونِ فتنہ سامان کی تُم ہی دامن میں رکھ لو دھجیاں میرے غریباں کی
نہ دیتے غیر کاندھا دو قدم ہی ساتھ چل لیتے تُم ہی سمجھ لیتے کہ میت ہے مسلمان کی
اَب تو اِتنی بھی میسر نہیں مہہ خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
چین ملتا ہے تو
ایک ہی جام نے دونوں کا بھرم کھول دِیا رِند مسجد میں گئے شیخ جی مہہ خانے میں
چین ملتا ہے تو
جام تھرانے لگے اُڑ گئی بوتل سے شراب بے وضو کون چلا آیا ہے مہہ خانے میں
چین ملتا ہے تو
کون کہتا ہے جگر ایسی عبادت ہے حرام
ہاتھ میں جام لیا منہ سے کہا بسم اللہ کون کہتا ہے کہ رِندوں کو خدا یاد نہیں
آؤ سجدہ کریں اِک عالم مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
کون کہتا ہے جگر ایسی عبادت ہے حرام
اِس مہہ کے ترنم میں جوانی کو ڈبو دے اور نیکی کا اگر دَاغ بھی دِل میں ہے تو دھو دے
یوں جام اُٹھا جھوم کے رِہ جائے زمانہ مہہ خانے کا در چوم کر رِہ جانے زمانہ
اور ساقی اگر پوچھے کُچھ ہوش میں آ کے تو کہہ دے چھلکتا ہوا اِک جام چڑھا کے
کون کہتا ہے جگر ایسی عبادت ہے حرام
آؤ سجدہ کریں اللہ کو مہہ خانے میں
چین ملتا ہے تو
او ہجر انوکھا دے گہیوں ماہی میں تاں کردی حال پکاراں
او کٹیا ای وانگ قصائیاں میکوں اَتے دے دے گجیاں ماراں
او ر ات دی یاں نِم نیندر آندی میں تان رو رو وقت گذاراں
اے ڈاڈی امانت تیڈی وے ماہی کِتھے راہی موڑ موہاراں
کون کہتا ہے جگر ایسی عبادت ہے حرام
آؤ سجدہ کریں اللہ کو مہہ خانے میں
چین ملتا ہے تو
|