دل سمجھے ہے جنت کا بدل تیری جوانی
ایمان میں ڈالے ہے خلل تیری جوانی
ہے اِک حسین نظم اگر تیرا سراپا
ہے ایک پھڑکتی سی غزل تیری جوانی
اور آنکھوں کے دریچوں میں الف لیلہ کا منظر
بغداد کا ہے کوئی محل تیری جوانی
اور آ پیار کے پنگھٹ پہ کسی روز نہا لیں
کِھل اُٹھے گی ماند کنول تیری جوانی
آؤ تو کبھی دیکھو تو ذرا ہم کیسے جیئے تیری خاطر
دِن رات جلائے بیٹھے ہیں آنکھوں کے دیئے تیری خاطر
اِک ناطہ تُجھ سے جوڑ لیا سب اپنوں سے منہ موڑ لیا
ہم تنہا ہو کر بیٹھ گے سب چھوڑ دیئے تیری خاطر
آؤ تو کبھی دیکھو تو ذرا ہم کیسے جیئے تیری خاطر
کُچھ آئیں تھی کُچھ شکوے تھے ہونٹوں پہ جنہیں آنے نہ دیا
جو آنکھ کے رستے بھی آئے سب اَشک پیئے تیری خاطر
آؤ تو کبھی دیکھو تو ذرا ہم کیسے جیئے تیری خاطر
بدنام نہ تُو ہو جائے کہیں اِن اَپنی جفاؤں کے بدلے
اِن تیرے غموں پہ خوشیوں کے سو پردے کیے تیری خاطر
آؤ تو کبھی دیکھو تو ذرا ہم کیسے جیئے تیری خاطر
میرے خونِ جگر کا داغ کہیں دامن پہ تیرے نہ لگ جائے
اِک عہدِ وفا کے دھاگے سے سب زخم سیے تیری خاطر
آؤ تو کبھی دیکھو تو ذرا ہم کیسے جیئے تیری خاطر
ہم سب کُچھ اَپنا ہار گے برباد ہوئے اور تو نہ ملا
بے کار جہاں میں جینے کے الزا م لیے تیری خاطر
آؤ تو کبھی دیکھو تو ذرا ہم کیسے جیئے تیری خاطر
|