وہ کہہ کے چلے اتنی ملاقات بہت ہے
میں نے کہا کہ رُک جاؤ ابھی رات بہت ہے
آنسو میرے تھم جائیں تو پھر شوق سے جانا
ایسے میں کہاں جاؤ گے برسات بہت ہے
اب دیکھ کے جی گبھراتا ہے ساون کی سہانی راتوں کو
پیا چھوڑ گے دِل توڑ گے اب آگ لگے برساتوں میں
نہ جانے آخری دِیدار کرنے کب آؤ
کفن سے اِس لیے چہرہ نکال رکھا ہے
خدا کے سامنے بھی تُو مُکر نہ جائے کہیں
اِس لیے تو تیرا خط سنبھال رکھا ہے
یوں پیار کی قسمیں کھا کھا کر کیوں جھوٹی تسلی دیتے ہو
بس رہنے دو ہم جان گے سرکار تمھاری باتوں کو
آپ کی آنکھ بھاری ہے
رات کِس شغل میں گذاری ہے
دوستی اُن سے ہو گئی ہے اے عدمؔ
جِن کی ہر بات کاروباری ہے
مسلا ہوا آنچل شانوں پر اور زُلف کی لٹ اُلجھی اُلجھی
آنکھوں کی خماری کہتی ہے رہتے ہو کہیں تُم راتوں کو
اَب کام نہیں ہے کوئی ہمیں ساون کی بوندا باندی سے
آنکھوں میں سمائے بیٹھے ہیں ہم اَشکوں کی سوغاتوں کو
ہم مِل کر چاند نی راتوں میں جب پیار کی باتیں کرتے تھے
کیوں بھول گے ہو یاد کرو اُن پیار بھری ملاقاتوں کو
|