اِک درد بھری چیخ ہوں ناکام دُعا ہوں
اُجڑے ہوئے ماضی کی پریشاں صدا ہوں
گیتوں میں سمویا ہے لہو اپنے جگر کا
نغموں کے بہانے یہ لہو تھوک رہا ہوں
میں شرابی ہوں مُجھے پیار ہے آخر کیوں ہے
میں تو آوارہ ہوں دِیوانہ ہوں سودائی ہوں
چلتی پھرتی ہوئی رسوائی ہی رسوائی ہوں
سانس لینا مُجھے دَشوار ہے آ خر کیوں ہے
غمِ عاشقی کے مارے رہے عام تک نہ پہنچے
کبھی صبح تک نہ آئے کبھی شام تک نہ پہنچے
میں نظر سے پی رہا تھا کی دِل نے یہ بددعا دی
تیرا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے
خود کشی کے لیے ہر روز زہر پیتا ہوں
سب کی سُن لیتا ہوں دُکھ سہتا ہوں اور جیتا ہوں
زندگی میری شرم شار ہے آخر کیوں ہے
ہم کو معلوم ہے کیا دستِ ہنائی دے گا
قُرب بوہیں گے تو وہ فصلِ جُدائی دے گا
آنکھ نیلم کی بدن کانچ کا دِل پتھر کا
اپنے شاہکار کو کو ن اِتنی صفائی دے گا
میں ہوں مجبور تم میں کہتا ہوں مجبور نہ ہو
مت قریب آؤ شرابی سے ذرا دُور رہو
زندگی میری گناہ گار ہے آخر کیوں ہے
کِس قدر درد میں ڈوبی ہے کہانی میری
مسکراہٹ کو ترستی ہے جوانی میری
جو بھی اَپنا ہے وہ بے زار ہے آخر کیوں
خود کشی کے لیے ہر روز زہر پیتا ہوں
سب کی سُن لیتا ہوں دُکھ سہتا ہوں اور جیتا ہوں
موت بھی مُجھ سے شرمسار ہے آخر کیوں ہے
|