گیت نمبر:6 گیت:میں شرابی ہوں مجھے پیار ہے
شاعر:متفرق کمپنی:پی ایم سی والیم:57
نصیب چین کی اِک دِن زندگی نہ ہوئی
خوشی کی آس لگائے رہے خوشی نہ ہوئی
وہ بدنصیب شجر ہوں میں باغِ اُلفت کا
کہ جِس کی شاخ جو سُوکھی تو پھر ہری نہ ہوئی
روز ٹانکے اُدھیرے جاتے ہیں
روز زخمِ جگر کو سیتا ہوں
جانے کیوں لوگ پڑنا چاہتے ہیں
میں نہ قرآن ہوں نہ گیتا ہوں
میں شرابی ہوں مجھے پیار ہے آخر کیوں ہے
میں تو آوارہ ہوں دیوانہ ہوں سودائی ہوں
چلتی پھرتی ہوئی رسوائی ہی رسوائی ہوں
سانس لینا مجھے دشوار ہے آخر کیوں ہے
میں شرابی ہوں مجھے پیار ہے آخر کیوں ہے
خود کشی کیلئے ر روز زہر پیتا ہوں
سب کی سن لیتا ہوں دُکھ سہتا ہوں اور جیتا ہوں
زندگی میری گناہگار ہے آخر کیوں ہے
میں شرابی ہوں مجھے پیار ہے آخر کیوں ہے
میں ہوں مجبور تم کہتا ہوں مجبور نہ ہو
مت قریب آؤ شرابی سے ذرا دُور رہو
زندگی میری گناہگار ہے آخر کیوں ہے
میں شرابی ہوں مجھے پیار ہے آخر کیوں ہے
کِس قدر دَرد میں ڈوبی ہے کہانی میری
مسکراہٹ کو ترستی ہے جوانی میری
جو بھی اپنا ہے بے زار ہے آخر کیوں ہے
میں شرابی ہوں مجھے پیار ہے آخر کیوں ہے
|