بن تیرے آواز دِل سے آتی ہے جیسے وچھڑی کونج کوئی کُرلاتی ہے
جل اُٹھتے ہیں دیپ اَشکوں کے پلکوں پر رات جدائی کی جب سر پہ آتی ہے
بن تیرے آواز دِل سے آتی ہے
یاد آتا ہے سایہ تیری قُربت کا تیری فرقت کی جب دھوپ جلاتی ہے
بن تیرے آواز دِل سے آتی ہے
بھولنے والے تُجھ کو کچھ احساس نہیں تیری یاد مجھے کِتنا تڑپاتی ہے
بن تیرے آواز دِل سے آتی ہے
موت سے پہلے دیکھ تو لوں اِک بار تجھے آ جا اب تو جان نکلتی جاتی ہے
بن تیرے آواز دِل سے آتی ہے
کیسے تیرا درد چھپاؤں دُنیا سے ہر ایک زخم سے تیری خوشبو آتی ہے
بن تیرے آواز دِل سے آتی ہے
کون تُجھے سمجھائے نازؔ جوانی میں تنہائی سے جان بہت گبھراتی ہے
بن تیرے آواز دِل سے آتی ہے
|