گیت نمبر:466 گیت:نہ حرم میں نی کلیسا میں نہ بت خانے میں
شاعرجگر مراد آبادی(:متفرق) کمپنی:بے نمبری والیم:بے نمبری
شکستہ مقبروں پر ٹوٹتی راتوں میں اِک لڑکی لیے ہاتھوں میں بربت جوگ میں کچھ گنگناتی ہے
اور کہا کرتے ہیں چرواہے کہ جب رکتے ہیں گیت اسکے تو اک تازہ لحد سے چیخ کی آواز آتی ہے
نہ حرم میں نہ کلیسا میں نہ بُت خانے میں
چین ملتا ہے تو ساقی تیرے مہہ خانے میں
تیرے بغیر کبھی چین سے بسر نہ ہوئی یہ اور بات اِسکی تُجھے خبر نہ ہوئی
اور بڑا عجیب تھا تیرے دیار کا رستہ کہ چاندنی بھی میری وہاں ہم سفر نہ ہوئی
کِتنا دل کش تھا وہ آغاز محبت کا سماں شدت شرم سے جب تیری نظر شرمائی
تُو نے اُنگلی پہ سیاہ زُلف لپیٹی جِس دَم خود بخود جب تیرے ہونٹوں پہ ہسی لہرائی
او دلبر یار پیار تیڈے وچ میڈا رات دا نیند آرام گیا
او جِس دن دی تُساں جوک لُٹی میڈا لُٹیا سب سامان گیا
اَکھیاں شودیاں رو رو مکھیاں تے میڈا دید تے ہوش تے ایماں گیا
او بریم باج دیدار شفا نہ کائی توڑے حکمت لکھ لقمان گیا
میں کوئی رِند نہیں اِس لیے پیتا ہوں شراب
اگرچہ اِک زمانہ ہو گیا ترکِ تعلق کو تمھاری یاد اب بھی بار ہا تکلیف دیتی ہے
اگر تکلیف جائز ہو تو ہم سہہ لوں خاموشی سے گلہ یہ ہے کہ دُنیا ناروا تکلیف دیتی ہے
میں کوئی رِند نہیں اِس لیے پیتا ہوں شراب
بس کے دِل وچ سوہنڑاں ماہی نہیں سجدیاں بے پروایاں
جہیڑے دِیں تُو لگیاں اَکھیاں اَساں اَکھیاں مول نہ لائیاں
او گل گئی گُل گُل سجری جوانی تے پہ گیہاں منہ تے چھائیاں
او عتیلؔ بے کس لاچار دِئیاں ہُن تے مَن گِن یار جکھائیاں
میں کوئی رِند نہیں اِس لیے پیتا ہوں شراب
تیری تصویر نظر آتی ہے پیمانے میں
رازِ دل کیوں نہ کہوں سامنے دیوانوں کے یہ تو وہ لوگ ہیں اپنوں کے نہ بیگانوں کے
وہ بھی کیا دور تھے ساقی تیرے مستانوں کے راستے راہ تکا کرتے تھے مہہ خانوں کے
اور وہ بھی کیا دِن تھے اُدھر شام اِدھر ہاتھ میں جام اَب تو رَستے بھی رہے یاد نہ مہہ خانوں کے
دَفن کرنا میری میت کو بھی مہہ خانے میں
تا کہ مہہ خانے کی مٹی رہے مہہ خانے میں
وے تسلیم کیتا میں آسی ہاں ناواقف یار اَدب نہیں
سوراں ہر ویلے تہہ مالک نوں میڈے کیں ویلے چھپ لب نہیں
میں شرف وصال توں قاصر آں کوئی بندا سانگ سبب نہیں
تیڈے عرش تے رحمت مُکھ گئی اے یا تُو یسینؔ دا رب نہیں
دَفن کرنا میری میت کو بھی مہہ خانے میں
تا کہ مہہ خانے کی مٹی رہے مہہ خانے میں
ہوئی ختم جب سے وہ صحبیتں میرے مشغلے بھی بدل گے کبھی روئے شام کو بیٹھ کر کبھی میکدے کو ٹہل گے
تیرا ہاتھ ہاتھ سے چُٹ گیا تو لکیریں ہاتھ کی مِٹ گئی جو لکِھا ہوا تھا وہ مِٹ گیا جو نصیب تھے بدل گے
آؤ رِندو میری توبہ کی زِیارت کر لو
چھوڑ گہیوں ماہی اتھے نہ ولیو ایں تے چا کیتی ایئی دل کڑاڑی
او لکھاں دیاں ہن میداں تیں تے تیں اک وی توڑ نی چاڑی
اج ڈیکھ کے وقت مصیبت والا تے شریک مریندے نے تاڑی
او مندا تھیوے انہاں مندیاں دا جنہاں وَسدی جھوک اُجاڑی
آؤ رِندو میری توبہ کی زِیارت کر لو
ابھی کچھ دیر ہے مرحوم کے دفنانے میں
آنکھوں میں بس کے دیکھ دلوں میں سما کے دیکھ کتنے ہیں پرسکون یہ مقامات آ کے دیکھ
شاداب تو کیا تھا مجھے اپنے قرب سے اب فاصلوں کی آگ میں جلتا بھی آ کے دیکھ
اَب تو اِتنی بھی میسر نہیں مہہ خانے میں
او یاد آدم او ویلا لوکوں تے جداں ماہی نال وسدے ہاسے وے وسواسے
او پلک اندر اک جھلک لگی تے میڈے اجڑ گے نے ہاسے
نہ اُف کیتی اِنہاں ظلماں توں اس صدق وفا دے لاشے بج گے کاسے
وے آڈھا جے سجنٹر وفا چا کردا تھوڑے جگ ہوندا اک پاسے ہردے نہ سے
اَب تو اِتنی بھی میسر نہیں مہہ خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
ایک ہی جام نے دونوں کا بھرم کھول دیا
رند مسجد میں گے شیخ جی میخانے میں
جام تھرانے لگے اڑ گئی بوتل سے شراب
بے وضو کون چلا آیا ہے میخانے میں
وے ہجر انوکھا دے گہیوں ماہی میں تاں کردی حال پکاراں
او کٹیھاں وانگ قصائیاں میکوں اَتے دِے دِے گجیاں ماراں
او رات دِیاں نِم نیندر آندھی میں تاں رو رو وقت گذاراں
اے ڈاڈی امانت تیڈی ماہی کتھے راہی موڑ موہاراں
کون کہتا ہے جِگر ایسی عبادت ہے حرام
تیرا سنگ آستاں نہ مل سکا تیری راہ گذر تے جبین سہی مجھے سجدہ کرنے سے غرض ہے جو وہاں نہیں تو یہی سہی
کون کہتا ہے جِگر ایسی عبادت ہے حرام
آو سجدہ کریں اللہ کو میخانے میں
|