گیت نمبر:463 گیت:اِدھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا
شاعر:تابش دہلوی (متفرق) کمپنی:ایس ایس ایس والیم:8
میری نمازہ جنازہ پڑھائی غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا اُدھر زِندگی اُن کی دلہن بنے گی
قیامت سے پہلے قیامت ہے یارو میرے سامنے میری دنیا لُٹے گی
جوانی پہ میری ستم ڈھانے والوں ذرا سوچ لو کیا کہے گا زمانہ
اِدھر میرے اَرمان کفن پہن لیں گے اُدھر اُن کے ہاتھوں پی مہندی لگے گی
وہ پردے کے پیچھے میں پردے کے آگے نہ وہ آئیں آگے نہ میں جاؤں پیچھے
وہ آگے بڑھیں گے تو کچھ بھی نہ ہو گا میں پیچھے ہٹوں گا تو دنیا ہنسے گی
اَزل سے محبت کی دشمن ہے دُنیا کہیں دو دلوں کو ملنے نہ دے گی
اِدھر میرے دل پرخنجر چلے گا اُدھر اُن کے ماتھے پہ بندیاں سجے گی
ابھی ان کے ہنسنے کے دن ہیں وہ ہنس لیں ابھی میرے رونے کے دن ہیں میں رو لوں
مگر ایک دن انکو رونا پڑئے گا کہ جس دن بھی میری میت اٹھے گی
|