گیت نمبر:461 گیت:اِدھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا
شاعر:تابش دہلوی(متفرق) کمپنی:پی ایم سی والیم:55
ہم تو تنکے چن رہے تھے آشیانے کیلئے آپ کو کس نے کہا بجلی گرانے کیلئے
ہاتھ تھک جائیں گے کیوں پیس رہے ہو مہندی خون حاضر ہے ہتھیلی پہ لگانے کیلئے
اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا
عشق کو درد سر کہنے والوں سنو کچھ بھی ہو ہم نے یہ درد سر لے لیا
وہ نگاہوں سے بچ کر کہاں جائیں گے اب تو انکے محلے میں گھر لے لیا
آئے بن ٹھن کے شہر اے خاموشاں میں وہ قبر دیکھی جو میری تو کہنے لگے
ارے آج اتنی تو اس کی ترقی ہوئی ایک بے گھر نے اچھا سا گھر لے لیا
اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا اُدھر زِندگی اُن کی دلہن بنے گی
قیامت سے پہلے قیامت ہے یارو میرے سامنے میری دنیا لٹے گی
وہ پردے کے پیچھے میں پردے کے آگے نہ وہ آئیں آگے نہ میں جاؤں پیچھے
وہ آگے بڑہیں گے تو کچھ بھی نہ ہو گا میں پیچھے ہٹوں گا تو دنیا ہنسے گی
میری موت پریوں کے جھرمٹ میں ہو گی جنازہ حسینوں کے کاندھے پہ ہو گا
کفن میرا ہو گا انہیں کا دوپٹہ بڑی دھوم سے میری میت اٹھے گی
|