گیت نمبر:459 گیت:اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا
شاعر:تابش دہلوی (متفرق) کمپنی:او ایس اے والیم:41
زمانہ کچھ بھی کہے اس کا احترام نہ کر جیسے ضمیر نہ مانے اُسے سلام نہ کر
شراب پی کہ بہکنا ہی اگر تو نہ پی حلال چیز کو اسطرح سے حرام نہ کر
اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا
عشق کو درد سر کہنے والوں سنو کچھ بھی ہو ہم نے یہ درد سر لے لیا
وہ نگاہوں سے بچ کر کہاں جائیں گے اب تو انکے محلے میں گھر لے لیا
آئے بن ٹھن کے شہر خاموشاں میں وہ قبر دیکھی جو میری تو کہنے لگے
ارے آج اتنی تو اس کی ترقی ہوئی ایک بے گھر نے اچھا سا گھر لے لیا
شراب کا کوئی اپنا صریح رنگ نہیں یہ تجزیہ و احتساب کرتی ہے
جو اہل دل ہیں بڑھاتی ہے آبرو اُنکی جو بے شعور ہیں ان کو خراب کرتی ہے
اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا اُدھر زِندگی اُن کی دلہن بنے گی
جوانی پہ میری ستم ڈھانے والوں ذرا سوچ لو کیا کہے گا زمانہ
اِدھر میرے اَرمان کفن پہن لیں گے اُدھر اُن کے ہاتھوں پہ مہندی لگے گی
وہ پردے کے پیچھے میں پردے کے آگے نہ وہ آئیں آگے نہ میں جاؤں پیچھے
وہ آگے بڑہیں گے تو کچھ بھی نہ ہو گا میں پیچھے ہٹوں گا تو دنیا ہنسے گی
اَزل سے محبت کی دشمن ہے دُنیا کہیں دو دلوں کو ملنے نہ دے گی
اِدھر میرے دل پر خنجر چلے گا اُدھر اُن کے ماتھے پہ بندیاں سجے گی
|