گیت نمبر:455 گیت:بے وفا یوں تیرا مسکرانا بھول جانے کے قابل نہیں
شاعر:متفرق کمپنی:او ایس اے(یوکے) والیم:او ایس اے(ویڈیو)
مجھے اپنی پستی کی شرم ہے تیری رفعتوں کا خیال ہے مگر اپنے دل کو میں کیا کروں اسے پھر بھی شوقِ وصال ہے
اُنہیں ضِد ہے عرضِ وصال سے مجھے شوقِ عرض وصال ہے وہی اب بھی اُن کا جواب ہے وہی اب بھی میرا سوال ہے
تیری یاد میں ہوا جب سے گُم تیرے گُم شُدہ کا یہ حال ہے کہ نہ دُور ہے نہ قریب ہے نہ فراق ہے نہ وصال ہے
یاد آدم او ویلا لوکو تے جداں ماہی نال وسدے ہاسے
ہر ویلے رَل باندھے ہاسے تے اِک میتھوں وِسدے ناسے
میکوں سمجھ نہیں آندی میڈا رب جانڑیں ماہی ٹُر گیا کہیڑے پاسے
اکھیاں رُوون دل کُر لاوے پُل گہیاں خوشیاں تے ہاسے
آہنگ آگ رنگ روانی اُٹھا کے لا خوشیوں کا ناچتا ہوا پانی اُٹھا کے لا
کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں جا میکدے سے میری جوانی اُٹھا کے لا
بے وفا یُوں تیرا مُسکرانا
ملیں نہ پھول تو تربت پہ میری ہنس دینا سنا ہے پھول برستے ہیں مسکرانے سے
بے وفا یُوں تیرا مُسکرانا بھول جانے کے قابل نہیں ہے
میں نے جو زخم کھایا ہے دل پر وہ دیکھانے کے قابل نہیں
تِرچھی تِرچھی نظر کے میں قُربان تیری آنکھیں ہیں یا مہہ کے پیالے
نظر ملا کے میرے پاس آ کے لُوٹ لیا نظر ہٹی تھی کہ پِھر مسکرا کے لُوٹ لیا
دوہائی ہے میرے اللہ تیری دوہائی ہے کِسی نے مُجھ سے بھی مُجھ کو چُھپا کے لوٹ لیا
تِرچھی تِرچھی نظر کے میں قُربان تیری آنکھیں ہیں یا مہہ کے پیالے
جِس کو تُو نے نظر سے پلایا ہوش پھر اُس کو آیا نہیں ہے
میں نے خط لِکھ کے اُن کو بُھلایا آ کے قاصد نے دُکھڑا سنایا
اب تو آؤ مورے سجنڑاں موری عمریا بیتی جائے
اب تو آؤ پاس ہمارے دل کے سہارے آنکھ کے تارے
بیت چلی مہتاب کی راتیں پیار کے میٹھے خواب کی باتیں
ہجر کے دِن بھی کتنے گذارے اَب تو آؤ پاس ہمارے
کال اے کوساں چھاؤنی چھائی دل سے ہماری پریت بھلائی
بیٹھے ہو کب سے ہم کو بسارے اب تو آؤ پاس ہمارے
خوش ہے بُلبل پھول کے دم سے اور پتنگا شمع کے دم سے
ہائے جیئں ہم کِس کے سہارے اب تو آو سجن ہمارے
میں نے خط لِکھ کے اُن کو بُھلایا آ کے قاصد نے دُکھڑا سنایا
اُن کے پاؤں میں مہندی لگی ہے آنے جانے کے قابل نہیں
جب سے دیکھا ہے جلوہ تمھارا کوئی آنکھوں میں جچتا نہیں ہے
کوئی زُلفاں وے چھلے او چھلے
سوہنڑے تاں بہوں وسدے میرے سجنٹر تُوں تھلے او تھلے
جب سے دیکھا ہے جلوہ تمھارا کوئی آنکھوں میں جچتا نہیں ہے
لاکھ دیکھے یہاں حُسن والے کوئی عالم میں تُجھ سا نہیں
آئے ہو آ کے جانے لگے ہو یہ بھی کیا دِل لگی دِل لگی ہے
جہاں میں تُو ہی تو میری جستجو ہے تمنا بھی تُو اور تُو ہی آرزو ہے
ہے چاہت بھی تُو اور محبت بھی تُو ہے میری زندگانی کی عبارت بھی تو ہے
خیالوں میں تُو ہے خوابوں میں تُو ہے نگاہوں میں تُو ہے تو سانسوں میں تُو ہے
کہ میری محبت کے قابل تمہیں ہو میرے زندگانی کا حاصل تمہیں ہو
تیری جُستجو میں جیو گا مروں گا محبت کروں گا تو تم سے کروں گیا
آئے ہو آ کے جانے لگے ہو یہ بھی کیا دِل لگی دِل لگی ہے
میری نظریں ابھی تک ہیں پیاسی میں نے جی بھر کے دیکھا نہیں ہے
میں نے پوچھا کے کل شب کہاں تھے پہلے شرمائے پھر چل کے بولے
آپ وہ بات کیوں پوچھتے ہیں جو بتانے کے قابل نہیں ہے
تیروتلوار تم مت اٹھا ہو کیوں یہ کرتے ہو بیکار زحمت
غور کر اس غریب کی خوشیاں کتنے صدموں سے بھر گئی ہوں گی
ارئے جس کو پیمانہ دوستی دے کر تیری آنکھیں مکر گئی ہوں گی
تیروتلوار تم مت اٹھا ہو کیوں یہ کرتے ہو بیکار زحمت
جانتے ہیں تمھاری کلائی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے
شیشہ پتھر سے ٹھکرا کے ٹوٹا ٹوٹنے کی صدا سب نے سن لی
بے رحم ہُن قاصد ونج آکھیں ساڈے ملن دے تانگ لاہا چھوڑیں
اَج سارے سانگھے مُکھ گے نی میڈے پیار تے مٹیھاں پا چھوڑیں
آویں لاش میڈی تے سَج دَج کے لکھ غیر ہوسن راویں منہ کج کے
پچھے تنہا رو ویں رَج رَج کے پہلے کفن دے بند بندوا چھوڑیں
جِس ویلے لاش نوں خاک کریں پڑھ ختم قرآن دا آپ کریں
ہتھ رکھ کے قبر تے معاف کریں کر مویاں نال وفا چھوڑیں
شیشہ پتھر سے ٹھکرا کے ٹوٹا ٹوٹنے کی صدا سب نے سن لی
دل کسی کا اگر ٹوٹ جائے کوئی آواز سنتا نہیں ہے
عاشقی کا تقاضا یہی ہے ہم نہ بدلے نہ تُم ہم سے بدلو
خیال کو کسی آہٹ کی آس رہتی ہے نگاہ کو کِسی صورت کی پیاس رہتی ہے
تیرے بغیر کِسی چیز کی کمی تو نہیں تیرے بغیر طبیعت اُداس رہتی ہے
عاشقی کا تقاضا یہی ہے ہم نہ بدلے نہ تُم ہم سے بدلو
تُم تو ایسے بدلنے لگے ہو آج تک کوئی بدلا نہیں ہے
میں نے پوچھا کہ پھر کب ملو گے پہلے شرمائے پھر ہنس کے بولے
تم تو دل میں سمائے ہوئے ہو ملنے کی ضرورت نہیں ہے
سوچ لو دِل لگانے سے پہلے لوگ بدنام کر دیں گے تجھ کو
ساقیا میری عقیدت کو نہ دھوکا دینا میں تیری آنکھ کی نیت سے خبردار نہیں
اور سوچ لو راہ میں مُجھ کو نہ پریشان کرنا راستہ زیست کا کہتے ہیں ہموار نہیں
سوچ لو دِل لگانے سے پہلے لوگ بدنام کر دیں گے تجھ کو
پیار کو چاہیے جتنا چھپاؤ یہ چھپانے سے چُھپتا نہیں ہے
میں نے جب بھی کی عرضِ تمنا زُلف کی طرح بل کھا کے بولے
تُو ڈھونڈ فلک پر باغِ اِرم اپنا تو عقیدہ ہے زاہد
جِس خاک پہ دو دل پیار کریں وہ خاک بھی جنت ہوتی ہے
میں نے جب بھی کی عرضِ تمنا زُلف کی طرح بل کھا کے بولے
ایسے عاشق کو سولی چڑھا دو رحم کھانے کے قابل نہیں ہے
بے وفا یُوں تیرا مُسکرانا بھول جانے کے قابل نہیں ہے
میں نے جو زخم کھایا ہے دِل پر وہ دیکھانے کے قابل نہیں
|