گیت نمبر:452 گیت:آکر ہماری قبر پر تم نے جو
شاعر:نامعلوم کمپنی:پرانی یادیں البم:پرانی یادیں
گریباں چاک کیے پھر رہا ہوں گُلشن میں گُلوں کی شاخ سے بچھڑا ہوا گلاب ہوں میں
بہار رُوٹھ گئی اِک فریب دِے کر مُجھے مُجھے نہ دیکھو کہ اُجڑا ہوا شباب ہوں میں
عشق کو درد سر کہنے والو سنو کچھ بھی ہو ہم نے یہ درد سر لے لیا
وہ نگاہوں سے بچ کر کہا جائیں گے اب تو انکے محلے میں گھر لے لیا
آئے بن ٹھن کے شہر خاموشاں میں وہ قبر دیکھی جو میری تو کہنے لگے
ارے آج اتنی تو اسکی ترقی ہوئی ایک بے گھر نے اچھا سا گھر لے لیا
ہم اِہل وَفا حُسن کو رُسوا نہیں کرتے پردہ بھی اُٹھے رُخ سے تو دِیکھا نہیں کرتے
کر لیتے ہیں دِل اَپنا تصور ہی سے روشن مانگوں کے چراغوں سے اُجالا نہیں کرتے
چند اشعار تسلسل کیساتھ
بنا بنا کے جو دُنیا مٹائی جاتی ہے ضرور کوئی کمی ہے جو پائی جاتی ہے
جب اَجنبی کوئی آتا ہے اُنکی محفل میں تو اِیک شمع اُسی دَم جلائی جاتی ہے
جلا کے شمع وہ فوراً بُجھا بھی دیتے ہیں دوھویں کی سمت پھر اُنگلی اُٹھائی جاتی ہے
دوھواں دکھا کے وہ کہتے ہیں آنے والے سے کہ عاشقوں کی یہ حالت بنائی جاتی ہے
وہ سر کھولے ہماری لاش پر دِیوانہ وار آئے اِسی کو موت کہتے ہیں تو یارب بار بار آئے
آ کر ہماری قبر پر
عشق میں دل کا تماشہ نہیں دیکھا جاتا ہم سے ٹوٹا ہوا شیشہ نہیں دیکھا جاتا
اپنے حصے کی خوشی آ میں لٹا دوں تجھ پر تیرا اُترا ہوا چہرہ نہیں دیکھا جاتا
اپنے جوڑے میں سجا لے میرے زخموں کے گلاب تیرا بے رنگ سا جوڑا نہیں دیکھا جاتا
آ کر ہماری قبر پر تُو نے جو مُسکرا دِیا بجلی چمک کے گِر پڑی سارا کفن جلا دِیا
پہلے تو پیس پیس کر سُرما میرا بنا دِیا
آئے ہو حال پوچھنے جب خاک میں مِلا دِیا
آ کر ہماری
چین سے سو رہا تھا میں اُوڑے کفن مزار میں
یہاں بھی ستانے آ گے کِس نے پتا بتا دِیا
آ کر ہماری
شعر عرض اِے
جونپھڑے میں فقیر کے اِس کے سِوا رَکھا ہے کیا
فرش نظر بچا دِیا تکیہ اے دِل لگا دِیا
آ کر ہماری قبر پر
جاؤں سدھاروں میری جان تُم پر خدا کی ہو اَماں
بچھڑے ہوئے ملیں گے پھر قسمت نے گر مِلا دِیا
آ کر ہماری قبر پر تُو نے جو مُسکرا دِیا
بجلی چمک کے گِر پڑی سارا کفن جلا دِیا
آ کر ہماری
|