گیت نمبر:449 گیت:ہم سے بھاگا نہ کرو دوغزالوں
شاعر:متفرق کمپنی:بے نمبری والیم:بے نمبری
آئے کیا کیا یاد نظر جب پڑھتی ان دالانوں پر اسکا کاغذ چپکا دینا گھر کے روشن دانوں پر
آج بھی جیسے شانے پر تم ہاتھ میرے رکھ دیتی ہو چلتے چلتے رک جاتا ہوں ساڑھی کی دوکانوں پر
کیوں مجھے موت کے پیغام دیئے جاتے ہیں یہ سزا کم تو نہیں ہے کہ جیے جاتے ہیں
نشہ دونوں میں ہے ساقی مجھے غم دے کہ شراب مہہ بھی پی جاتی ہے آنسو بھی پئے جاتے ہیں
آبگینوں کی طرح دل ہیں غریبوں کے شمیمؔ ٹوٹ جاتے ہیں کبھی توڑ دیئے جاتے ہیں
ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح
کم سے کم یاد ہی چھوڑ جانا اس قدر بےسہارہ نہ کرنا
مجھکو تنہایاں دینے والے دیکھ اتنا بھی تنہا نہ کرنا
اے تمنا کے جلتے چراغو پُھوک دینا میری زندگی کو
جس نے بخشی ہے غم جیسی دولت اسکے گھر میں اندھیرہ نہ کرنا
خود بخود نیند دی آنکھوں میں گُلی جاتی ہے مہکی مہکی ہے شب غم تیرے بالوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح
اور کیا اس سے زیادہ بھلا نرمی بھرتوں دل کے زخموں کو چھوہا ہے تیرے گالوں کی طرح
ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح
جھکیں تو لالا گل ہیں حجاب سی آنکھیں اٹھیں تو آگ لگا دیں شراب سی آنکھیں
یہ مختصر میری بربادیوں کا قصہ ہے تباہ کر گئی خانہ خراب سی آنکھیں
تیری زلفیں تیری آنکھیں تیرے ابرو تیرے لب
اب بھی مشہور ہیں دنیا میں مثالوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح
دونوں ہو گئے مشہور آج کل زمانے میں ہم انہیں بنانے میں وہ ہمیں مٹانے میں
صرف اک بار اس نے دل کا حال پوچھا تھا عمر کٹ گئی پھر آخر حال دل سنانے میں
جستجو نے کسی منزل پر ٹھہرنے نہ دیا
ہم بھٹکتے رہے آوارہ خیالوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح
زندگی جس کو تیرا پیار ملے وہ جانے
لگا کے زخم بدن پر قباحیں دیتا ہے رئیس شہر بھی کیا کیا سزائیں دیتا ہے
تمام شہر ہے مقتل اسی کے ہاتھوں سے تمام شہر اسی کو دعائیں دیتا ہے
زندگی جس کو تیرا پیار ملے وہ جانے
ہم تو ناکام رہے چاہنے والوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح
|