گیت نمبر:448 گیت:دیواروں سے باتیں کرنا اچھا
شاعر:قیصر(متفرق) کمپنی:پرانی یادیں والیم:پرانی یادیں
چلو ہماری بات تو چھوڑو اپنے خواب یہی تھے چرچے اب کیوں گلی گلی ہیں اسکی سنگدلی کے
کیوں مجھے موت کے پیغام دیئے جاتے ہیں یہ سزا کم تو نہیں ہے کہ جیے جاتے ہیں
نشہ دونوں میں ہے ساقی مجھے غم دے یا شراب مہہ بھی پی جاتی ہے آنسو بھی پیے جاتے ہیں
اور آبگینوں کی طرح دل ہیں غریبوں کے شمیمؔ ٹوٹ جاتے ہیں کبھی توڑ دیئے جاتے ہیں
دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے
آنکھوں کو بھی لے ڈوبا اس دل کا پاگل پن آتے جاتے جو ملتا ہے تم سا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا جسکو دیکھو اسکا دامن بھیگا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
کس کو پتھر ماریں قیصر کون پرایا ہے
اِیک پتھر اْدھر سے آیا ہے تو میں سوچ میں ہوں میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ہے
شیش محل میں اک اک چہرہ اپنا لگتا ہے
|