گیت نمبر:443 گیت:ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں
شاعر: کمپنی:پرانی یادیں والیم:پرانی یادیں
آئے کیا کیا یاد نظر جب پڑھتی ان دلانوں پر اسکا کاغذ چپکا دینا گھر کے روشن دانوں پر
آج بھی جیسے شانے پر تم ہاتھ میرے رکھ دیتی ہو چلتے چلتے رک جاتا ہوں ساڑھی کی دکانوں پر
ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح
خود بخود نیند سی آنکھوں میں گُھلی جاتی ہے مہکی مہکی ہے شب غم تیرے بالوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح
اور کیا اس سے زیادہ بھلا نرمی برتوں دل کے زخموں کو چھوہا ہے تیرے گالوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح
تیری زلفیں تیری آنکھیں تیرے اَبرو تیرے لب اب بھی مشہور ہی دنیا میں مثالوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح
جستجو نے کسی منزل پہ ٹھہرنے نہ دیا ہم بھٹکتے رہے آوارہ خیالوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح
زندگی جس کو تیرا پیار ملا وہ جانے ہم تو ناکام رہے چاہنے والوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح
|