گیت نمبر:442 گیت:اِدھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا
شاعر:تابش دہلوی(متفرق) کمپنی:سٹیج شو والیم:سٹیج شو
غم جہان کے فسانے تلاش کرتے ہیں یہ فتنہ گر تو بہانے تلاش کرتے ہیں
یہ انتہا ہے جنون ہوس پرستی کی پرائے گھر میں خزانے تلاش کرتے ہیں
نغمہ عشق سناتا ہوں اس شان کیساتھ رقص کرتا ہے زمانہ میرے وجدان کیساتھ
ہے میرا ذوق جنون کفر و خرد کی زد میں اے خدا اب تو اٹھا لے مجھے ایمان کیساتھ
غم جاناں غم ہستی غم حالات شکیل کیا کہوں کتنی بلائیں ہیں میری جان کیساتھ
اک سوہنٹراں دوجا دل دا ڈاڈا تے تریجا لگیا نیو وی اُتھاں ای
او کونٹر وکیل گھتاں در تیڈے اُتھے جا وی وکیلاں دی نائیں
تیلاں باہھج نہ بلن مثالاں تے اَتھے درداں باہھج نہ آئیں
کی ہویا تساں بولن چھڈیا اَساں ویکھن چھڈنا نائیں
کوئی آرزو نہیں ہے کوئی مدعا نہیں ہے تیرا غم رہے سلامت میرے دل میں کیا نہیں ہے
کہاں جام غم کی تلخی کہاں زندگی کا درماں مجھے وہ دوا ملی ہے جو میری دعا نہیں ہے
تو بچائے لاکھ دامن میرا پھر بھی ہے یہ دعوہ تیرے دل میں میں ہی میں ہوں کوئی دوسرا نہیں ہے
ادھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا
کیا کیجیے شکوہ دوری کا ملنا بھی غضب ہو جاتا ہے جب سامنے وہ آ جاتے ہیں احساس ادب ہو جاتا ہے
معلوم ہے دل کہ فتنہ گری پھر بھی تو نبھانا پڑتا ہے اس عشق میں اکثر دشمن کو سینے سے لگانا پڑتا ہے
ادھر زندگی کا
روپ والے ہو نام کر جاؤ ہم فقیروں کے کام کر جاؤ
کیسے گزریں گے ہجر کی گھڑیاں کچھ نہ کچھ اہتمام کر جاؤ
اور ہم فقیروں کے جھونپڑے میں کبھی چند لمحے قیام کر جاؤ
اِدھر ز ندگی کا جنازہ اُٹھے گا
ہم نے تم سے پیار کیا ہے اور دیوانہ وار کیا ہے کیوں ہم سے ناراض ہو اتنے کیا ہم نے سرکار کیا ہے
دل بھی حاضر جاں بھی حاضر کب ہم نے انکار کیا ہے تم کو ہی کل دکھ یہ ہو گا کیوں مجھکو بیمار کیا ہے
اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا اُدھر زندگی اُنکی دُلہن بنے گی
قیامت سے پہلے قیامت ہے یارو میرے سامنے میری دنیا لٹے گی
جوانی پہ میری ستم ڈھانے والوں ذرا سوچ لو کیا کہے گا زمانہ
اِدھر میرے اَرمان کفن پہن لیں گے اُدھر اُنکے ہاتھوں پہ مہندی لگے گی
اِدھر زندگی کا
وہ پردے کے پیچھے میں پردے کے آگے نہ وہ آئیں آگے نہ میں جاؤں پیچھے
وہ آگے بڑھیں گے تو کچھ بھی نہ ہو گا میں پیچھے ہٹو گا تو دنیا ہسے گی
ازل سے محبت کی دشمن ہے دنیا کہیں دو دلوں کو ملنے نہ دے گی
ادھر میرے دل پر خنجر چلے گا ادھر ان کے ماتھے پہ بندیا سجے گی
بڑھی جاتی ہے رسوائی جنون فتنہ ساماں کی تمہی دامن میں رکھ لو دھجیاں میرے غریباں کی
نہ دیتے غیر کاندھا دو قدم ہی ساتھ چل دیتے تم اتنا ہی سمجھ لیتے کہ میت ہے مسلمان کی
ابھی ان کے ہنسے کے دن ہیں وہ ہنس لیں ابھی میرے رونے کے دن ہیں میں رو لوں
مگر ایک دن ان کو رونا پڑئے گا
کوئی ہٹھیاں تے تاش آئی
ہنٹریں توں سنٹر بھاسی تیڈے سجنڑاں دِی لاش آئی
مگر ایک دن انکو رونا پڑئے گا کہ جس دن بھی میری میت اٹھے گی
ادھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا ادھر زندگی انکی دلہن بنے گی
|