گیت نمبر:423 گیت:اسکا گلہ نہیں کہ دعا بے اثر گئی
شاعر: کمپنی:پرانی یادیں البم:پرانی یادیں
مجھکو دیوانہ سمجھتے ہیں تیرے شہر کے لوگ میرے دامن سے الجھتے ہیں تیرے شہر کے لوگ
اور کیا دوں میں تجھے اپنی وفاوں کا ثبوت اب میرے حال پہ ہسنتے ہیں تیرے شہر کے لوگ
میکدہ بن گئی مست آنکھیں زلف کالی گٹھا ہو گئی ہے کیا ہو مہہ کا نشہ زندگی میں زندگی خود نشہ ہو گئی ہے
میں اسیر غم ہجر ٹھہرا اور اس سے زیادہ کہوں کیا مجھکو جرم محبت میں یارو عمر بھر کہ سزا ہو گئی ہے
پہلے تو دیکھنا مسکرانا پھر نظر پھیرنا روٹھ جانا ہو گیا خون کتنوں کا ناحق اَرے آپکی تو ادا ہو گئی ہے
اس کا گلہ نہیں کہ دعا بے اثر گئی اک آہ کی تھی وہ بھی کہیں جا کے مر گئی
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرہ موج نسیم تھی اِدھر آئی اُدھر گئی
اس کا گلہ نہیں
دام غم حیات میں الجھا گئی امید ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ احسان کر گئی
اس کا گلہ نہیں
اس زندگی سے ہم کو نہ دنیا ملی نہ دین تقدیر کا مشاہدہ کرتے گذر گئی
اس کا گلہ نہیں
انجام فصل گل پہ نظر تھی وگرنہ کیوں گلشن سے آہ بھر کے نسیم سحر گئی
اس کا گلہ نہیں
بس اتنا ہوشتھا مجھے روتے بتائے دوست ویرانہ تھا نظر میں جہاں تک نظر گئی
اس کا گلہ نہیں
ہر موج آب سندھ ہوئی وقف پیج و تاب محروم جب وطن میں ہماری خبر گئی
اس کا گلہ نہیں
|