گیت نمبر:413 گیت:مجھے موت دی کے حیات دی
شاعر: کمپنی:موچھ پروگرام البم:لائیو سٹیج پروگرام
نہ نماز آتی ہے اور نہ ہی وضو آتا ہے سجدہ کر لیتا جب سامنے تو آتا ہے
ہم اہل وفا حسن کو رسوا نہیں کرتے پردہ بھی اٹھے رُخ سے تو دیکھا نہیں کرتے
کر لیتے ہیں دل اپنا تصور ہی سے روشن مانگوں کے چراغوں سے اجھالا نہیں کرتے
اور بال بکھرائے ٹوٹی قبروں پر جب کوئی مہہ جبین روتی ہے
مجھ کو اکثر خیال آتا ہے موت کتنی حسین ہوتی ہے
د دوست میڈے اک گل یاد رکھی تے میڈی گل نوں دلوں بھلانڑواں نہیں
میڈی موت دی خبر جد پہنچی جلدی آوی تے سجنٹراں شرماونٹراں نہیں
آویں قبر اتھے تیڈی مہربانی پر لے کے نال رقیباں نوں آونٹراں نہیں
جیویں زندہ جلایا ای یار مینوں مسلمان ہاں مردہ جلاونڑاں نہیں
مجھے موت دی کے حیات دی یہ نہیں سوال کہ کیا دیا
میرے حق میں تیری نگاہ نے کوئی فیصلہ تو سنا دیا
میرے گھر کی شمع گواہ ہے کٹی رات جس پش و پیش
بنا بنا کے جو دنیا مٹای جاتی ہے ضرور کوئی کمی ہے جو پائی جاتی ہے
جب اجنبی کوئی آتا ہے ان محفل میں تو ایک شمع اُسی دَم جلائی جاتی ہے
جلا کے شمع وہ فوراً بُجھا بھی دیتے ہیں دوہیں سمت پھر انگلی اٹھائی جاتی ہے
دھواں دکھا کہ وہ کہتے ہیں آنے والے سے کہ عاشقوں کی یہ حالت بنائی جاتی ہے
میرے گھر کی شمع گواہ ہے کٹی رات جس پش و پیش
کبھی آہ کی کبھی خط لکھا کبھی خط کو لکھ کر جلا دیا
مجھے سنگ راہ سمجھ کے توں میری خامشی پہ نہ طنز کر
میرے منہ میں بھی تھی زبان کبھی تیرے غم نے ایسا بنا دیا
|