منزلوں پہ آ کے رُکتے ہیں دِلوں کے کارواں
کشتیاں ساحل پہ اکثر ڈوبتی ہیں پیار کی
منزلیں اَپنی جگہ ہیں رَاستے اَپنی جگہ
جب قدم ہی ساتھ نہ دیں تو مسافر کیا کرئے
یُوں تو ہے ہم درد بھی اور ہم سفر بھی ہے میرا
بڑھ کے کوئی ہاتھ نہ دے تو دل بھلا کیا کرئے
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا ہی بہت
دِل بہل جائے فقط اِتنا اِشارہ ہی بہت
اِتنے پر بھی آسمان والا گرا دے بجلیاں
کوئی بتلا دے ذرا یہ ڈوبتا پھر کیا کرے
پیار کرنا جُرم ہے تو جُرم ہم سے ہو گیا
قابلِ معافی ہوا کرتے نہیں ایسے گناہ
سنگ دِل یہ جہاں اور سنگ دِل میرا صنم
کیا کرئے جوش جنون اور حوصلہ پھر کیا کرئے
|