گیت نمبر:388 گیت:مریض محبت انہی کا فسانہ
شاعر:قمرؔ (متفرق) کمپنی:پرانی یادیں البم:پرانی یادیں
غم کا احساس جنہیں ہوتا ہے رو سکتے ہیں اور غیر کے اشک بھی دامن کو بھگو سکتے ہیں
نیند آتی نہیں پھولوں پہ خرد مندوں کو ارے ہم تو دیوانے ہیں کانٹوں پہ بھی سو سکتے ہیں
شب فراق میں یوں کی ہے میں نے نیند سے بات کہ اب تو کیوں نہیں آتی ہے مجھ غریب کے پاس
تو ہنس کے بولی کہ تو ہی بتا دے اے کمبخت میں تیرے پاس رہوں یا تیرے نصیب کے پاس
نہ طبیبوں کی طلب ہے نہ دعا مانگی ہے نیند چاہوں تیری زلفوں کی ہوا مانگی ہے
اور دشمنوں ہاتھ اٹھاو کہ میں جیو برسوں دوستوں نے میرے مرنے کی دعا مانگی ہے
مریض محبت انہی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شامِ الم جب بھی آیا چراغِ سحر بجھ گیا جلتے جلتے
ارادہ تھا ترک محبت کا لیکن فریب تبسم میں پھر آ گے ہم
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
انہیں خط میں لکھا کہ دل مضطرب ہے جواب انکا آیا کہ محبت نہ کرتے
میں نے کہا کہ درد ہے اس نے کہا ہوا کرے
میں نے کہا کہ مرتا ہوں اس نے کہا مرا کرے
میں نے کہا کہ سانس بھی رک رک کے آ رہی ہے آج
ایسا نہ ہو کہ چل بسوں اس نے کہا خدا کرے
انہیں خط میں لکھا کہ دل مضطرب ہے جواب انکا آیا کہ محبت نہ کرتے
تمہیں د ل لگانے کو کس نے کہا تھا بہل جائیگا دل بہلتے بہلتے
ارے کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے حساب اپنے دل سے لگا کر تو دیکھو
مجھے روتے ہوئے دیکھا کیا وعدہ پھر آنے کا
کہ اک بہتے ہوئے پانی پہ بنیاد مکاں رکھ دی
چمن کے رنگ و بو نے اسقدر دھوکے دیئے مجھکو
کہ میں نے ذوقِ گل بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھ دی
ارے کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے حساب اپنے دل سے لگا کر تو دیکھو
قیاقت کا دن آ گیا رفتہ رفتہ ملاقات کا دن بدلتے بدلتے
ہمیں اپنے دل کی تو پرواہ نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ کمسن کی ضد ہے
نقاب رخ سے ہٹاو کہ رات جاتی ہے
کوئی تو بات سناؤ کہ رات جاتی ہے
جو میکدے میں نہیں مئے تو کیا ہوا ساقی
ہمیں نظر سے پلاؤ کہ رات جاتی ہے
ہمیں اپنے دل کی تو پرواہ نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ کمسن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے دل سخت جاں کو مسلتے مسلتے
وہ مہمان ہوئے بھی ہمارے تو کب تک ہوئی شمع گل اور نہ ڈوبے ستارے
ہوئیں ختم جب سے وہ صحبتیں میرے مشغلے بھی بدل گئے
کبھی روئے شام کو بیٹھ کر کبھی میکدے کو ٹہل گئے
تیرا ہاتھ ہاتھ سے چُھٹ گیا تو لکیریں ہاتھ کی مٹ گئیں
جو لکھا ہوا تھا وہ مٹ گیا جو نصیب تھے وہ بدل گئے
وہ مہمان ہوئے بھی ہمارے تو کب تک ہوئی شمع گل اور نہ ڈوبے ستارے
قمرؔ کس قدر انکو جلدی تھی گھر کی وہ گھر چل دیئے دم نکلتے نکلتے
ہمیں اپنے دل کی تو پرواہ نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ کم سن کی ضد ہے
ہم دل سے تیرے غم کے پرستار نہ ہوتے
اس شان سے رسوا سر بازار نہ ہوتے
جینا بھی ہے الزام تو مرنا بھی ہے الزام
ہم کاش اس ملک کے فنکار نہ ہوتے
ہمیں اپنے دل کی تو پرواہ نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ کم سن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے دل سخت جاں کو مسلتے مسلتے
|