گیت نمبر:385 گیت:چلو پھر سے اپنے گاؤں چلتے ہیں
شاعر:افضل عاجزؔ کمپنی:این ایم سی البم:159
چلو پھر سے اپنے گاوں چلتے ہیں ان بڑے بڑے شہروں میں ہم جیسے لوگ
اجنبی سے اجنبی سے لگتے ہیں
یہاں روشن روشن چہروں میں وہ بات نہیں یہاں بادل ہیں پر گاوں سی برسات نہیں
یہاں ساون میں بھی میرے جیسے جلتے ہیں ان بڑے بڑے شہروں میں ہم جیسے لوگ
اجنبی سے اجنبی سے لگتے ہیں
اک ہرجائی کا ہرجائی پن لوٹ چکا دل ٹوٹنا تھا سو کب کا ٹوٹ چکا
اب دل کی تنہائی سے ڈرتے ہیں ان بڑے بڑے شہروں میں ہم جیسے لوگ
اجنبی سے اجنبی سے لگتے ہیں
کچھ دیواروں سے باتیں کر کے روتے ہیں کچھ ہم سے ایسے اہل دل بھی ہوتے ہیں
جو رو نہیں سکتے ٹھنڈی آئیں بھرتے ہیں ان بڑے بڑے شہروں میں ہم جیسے لوگ
اجنبی سے اجنبی سے لگتے ہیں
اک گہرے خوف کی چھایا ہے اور پردیسی کچھ ایسا موسم آیا ہے کہ پردیسی
خود اپنے ہی سائے سے اب تو ڈرتے ہیں ان بڑے بڑے شہروں میں ہم جیسے لوگ
اجنبی سے اجنبی سے لگتے ہیں
|