اور تو کُچھ نہ ہوا پی کے بہک جانے سے
بات مہہ خانے کی گئی باہر مہہ خانے سے
دو نگاہوں کا جوانی میں ایسا ملنا
جیسے دیوانے کا ملنا کِسی دِیوانہ سے
دِل کہ اُجڑی ہوئی حالت پہ نہ جائے کوئی
شہر آباد ہوئے ہیں اِسی ویرانے سے
درر و دیوار پہ قبضہ ہے اُداسی کا نذیرؔ
گھر میرا گھر نہ رہا اُن کے چلے جانے سے
کھول صراحی پیارے ساقی آج پُرانے یار ملے ہیں
بچھڑ گے جو ہم سے اچانک آج وہی مہہ خار ملے ہیں
جام چلیں گے بات چلے گی دُکھڑے کھول سُنائیں گے
اِس لیے اب خاموش ہیں بیھٹے تُم سے پہلی بار ملے ہیں
کھول صراحی پیارے ساقی آج پُرانے یار ملے ہیں
قدم قدم پر اہل خرت سے دھوکہ ہم نے کھایا ہے
پینے والے لوگ ہی ہم کو مخلص اور غمخار ملے ہیں
کھول صراحی پیارے ساقی آج پُرانے یار ملے ہیں
خود نہیں ڈرتا دُنیا کو محشر سے ڈراتا رہتا ہے
یونہی وقت گنوایا ہم نے واعظ سے بے کار ملے ہیں
کھول صراحی پیارے ساقی آج پُرانے یار ملے ہیں
رَقصاں رَقصاں جی بہلاتے ہا ہوں کرتے شور مچاتے
بہکے بہکے چند شرابی آج سرِ بازار ملے ہیں
کھول صراحی پیارے ساقی آج پُرانے یار ملے ہیں
دُنیا والے سوچ میں ڈُوبے ڈُوبے ہی فاروقؔ ملے ہیں
ہر موسم میں پینے والے ہی مُجھ کو سرشار ملے ہیں
کھول صراحی پیارے ساقی آج پُرانے یار ملے ہیں
|