گیت نمبر:337 گیت:میرے محبوب قیامت ہو گی
شاعر:آنند بخشی (متفرق) کمپنی:ایس ایس ایس والیم:5
یہ آرزو تھی کہ قدموں پہ تیرے دم نکلے قصور تیرا نہیں کم نصیب ہم نکلے
میرے محبوب قیامت ہو گی آج رُسوا تیری گلیوں میں محبت ہو گی
تیری نظریں تو گلہ کرتی ہیں میرے دل کو بھی صنم تجھ سے شکایت ہو گی
تیری گلی میں آتا صنم نغمہ وفا کا گاتا صنم تجھ سے سُنا نہ جاتا صنم
پھر آج اِدھر آیا ہوں مگر یہ کہنے میں دیوانہ ختم بس آج یہ وحشت ہو گی
آج رُسوا تیری گلیوں میں محبت ہو گی میرے محبوب
میری طرح تو آہیں بھرے توں بھی کسی سے پیار کرے اور رہے وہ تجھ سے پھرے
توں نے او صنم ڈھائے ہیں ستم اور اب یہ بھول نہ جانا کہ نہ تجھ پہ بھی عنایت ہو گی
آج رُسوا تیری گلیوں میں محبت ہو گی میرے محبوب
تیرے عتاب سے کتنی نباہ کی ہم نے نہ کوئی اَشک بہایا نہ آہ کی ہم نے
تجھے بھی ہم سے شکایت ہے اِے دل نادان تیرے لئے تو جوانی تباہ کی ہم نے
اُس دل کو اپنے پہلوں میں رہنے کا حق نہ دوں جس دل کی دھڑکنوں میں تیری آرزو نہ ہو
میری طرح تو آہیں بھرے توں بھی کسی سے پیار کرے اور رہے وہ تجھ سے پھرے
تم نے او صنم ڈھائے ہیں ستم اور اب یہ بھول نہ جانا کہ نہ تجھ پہ بھی عنایت ہو گی
آج رُسوا تیری گلیوں میں محبت ہو گی میرے محبوب
تیری نظریں تو گلہ کرتی ہیں میرے دل کو بھی صنم تجھ سے شکایت ہو گی
تیرے بغیر کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے توں کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے
کاش توں بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو لوگ آتے ہیں بہت دل کو دکھانے میرے
تیری گلی میں آتا صنم
اَشکوں میں جو پایا ہے وہ گیتوں میں دیا ہے اس پر بھی سنا ہے کہ زمانے کو گلہ ہے
جو ساز سے نکلی ہے وہ دُھن سب نے سنی ہے اور جو ساز پہ گذری ہے کس دل کو پتہ ہے
تیری گلی میں آتا صنم نغمہ وفا کا گاتا صنم تجھ سے سنا نہ جاتا صنم
توں نے او صنم ڈھائے ہیں ستم اور اب یہ بھول نہ جانا کہ نہ تجھ پہ بھی عنایت ہو گی
آج رُسوا تیری گلیوں میں محبت ہو گی میرے محبوب
میری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے مجھے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
کہیں سیف راستے میں وہ ملیں تو اُن سے کہنا میں اُداس ہوں اکیلا میرے پاس آ کے روئیں
تیری گلی میں آتا صنم نغمہ وفا کا گاتا صنم تجھ سے سنا نہ جاتا صنم
پھر آج اِدھر آیا ہوں مگر یہ کہنے میں دیوانہ ختم بس آج یہ وحشت ہو گی
آج رُسوا تیری گلیوں میں محبت ہو گی میرے محبوب
|