گیت نمبر:326 گیت:اِدھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا
شاعر:متفرق کمپنی:لائیو پروگرام والیم:سٹیج شو
ہم تو تنکے چن رہے تھے آشیانے کیلئے آپ سے کس نے کہا بجلی گرانے کیلئے
ہاتھ تھک جائیں گے کیوں پیس رہے ہو مہندی خون حاضر ہے ہتھیلی پہ لگانے کیلئے
عشق کو ددر دے سر کہنے والو سنو کچھ بھی ہو ہم نے یہ درد سر لے لیا
وہ نگاہوں سے بچ کر کہاں جائیں گے اب تو اُن کے محلے میں گھر لے لیا
آئے بن ٹھن کے شہر خاموشاں میں وہ قبر دیکھی جو میری تو کہنے لگے
اَرے آج اتنی تو اس کی ترقی ہوئی ایک بے گھر نے اَچھا سا گھر لے لیا
اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا اُدھر زِندگی اُن کی دلہن بنے گی
میری موت پریوں کے جھرمٹ میں ہو گی جنازہ حسینوں کے کاندھے پہ ہو گا
کفن میرا ہو گا اُنہی کا دوپٹہ بڑی دھوم سے میری میت اُٹھے گی
وہ پردے کے پیچھے میں پردے کے آگے نہ وہ آئیں آگے نہ میں جاؤں پیچھے
وہ آگے بڑہیں گے تو کچھ بھی نہ ہو گا میں پیچھے ہٹوں گا تو دنیا ہنسے گی
جوانی پہ میر ی ستم ڈھانے والوں ذرا سوچ لو کیا کہے گا زمانہ
ادھر میرے ارمان کفن پہن لیں گے اُدھر اُن کے ہاتھوں پی مہندی لگے گی
ازل سے محبت کی دشمن ہے دُنیا کہیں دو دلوں کو ملنے نہ دے گی
ادھر میرے دل پر خنجر چلے گا اُدھر اُن کے ماتھے پہ بندیاں سجے گی
|