گیت نمبر:284 گیت:اُسے ڈھونڈے میں ہم نے
شاعر: کمپنی:ایس آر سی والیم:1
اُن کی مست آنکھوں سے کچھ ایسی عقیدت ہو گئی جام مذہب بن گیا صحبہ شریعت ہو گئی
پہلے پیتے تھے کوئی معقول موقع ڈھونڈ کر رفتہ رفتہ بے سبب پینے کی عادت ہو گئی
اِک ستارہ اِک کلی اِک مہہ کا قطرہ اِیک زلف جب اکھٹے ہو گئے تعمیر جنت ہو گئی
اُسے ڈھونڈنے میں ہم نے ہے جہاں کی خاک چھانی کہ نہ جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ثانی
اُسے ڈھونڈنے میں ہم نے
تو جو بدلا ہے تو یہ بھی بتا دے مجھے کیا تو قسمت بھی میری بدل جائے گا
میرے پہلو سے اُٹھ کر تو جاتا ہے کیا تو دل سے بھی میرے نکل جائے گا
بِن تمہارے میں جی کے کروں گا بھی کیا توڑ دو اب میرے دل کا ہر آسرا
جان باقی ہے کر دوں گا وہ بھی فدا یہ بھی اَرماں تمہارا نکل جائے گا
کیا کیا صدمے نہ گذرے میری جان پر یاد تُم نے کیا نہ مجھ کو بھول کر
ساری دنیا تو بدلی ہے مجھ سے مگر کیا خبر تھی کہ تو بھی بدل جائے گا
جو بچھڑ گئے ہیں مجھ سے مجھے آرزو ہے جن کی کبھی وہ بھی سن ہی لیں گے میری دُکھ بھری کہانی
کہ نہ جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ثانی اُسے ڈھونڈنے میں ہم نے
وے جڈاں نال سانول دے وسدے ہاسے کوئی دُنیا توں وکھرے شو ہَن
او ہجر فراق دِی بو ناہی نہ کوئی دَرد اَندو ہَن
توڑے بدل غماں دے کڑکن ہا لوں لوں وچ وسدے او ہَن
ھئی حریاں زمانہ جڈاں لوکو وقت خوشی دے اوہ ہَن
مجھے چھوڑ جانے والے میرے دل میں آج بھی ہے وہی اِضطراب پہ ہم تیرے پیار کی نشانی
کہ نہ جسکا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ثانی اُسے ڈھونڈنے میں ہم نے
پریم سندیس نہ بھیجا کوئی میری بات نہ پوچھی نگری تیری چھوٹ چلی ہے نیناں بھر بھر آئے
وعدے جھوٹے آس بھی جھوٹی جھوٹے سنگ سہارے جیون ڈوری ٹوٹ چلی ہے اب تو آئے نہ آئے
میرے ناصحو نہ کوسو میرے دل کی بے بسی نے نہ تو میری بات مانی نہ تمہاری بات مانی
کہ نہ جس کا کوئی ہمسر نہیں جسکا کوئی ثانی اُسے ڈھونڈنے میں ہم نے
وے تینڈی چپ ہنڑ مینڈے ساہ پی گئی تے ذرا ڈھیر دعاواں منگ نئیں
کوئی فکر نہ کر میں مر ویساں ہتھ نال لہو دے رنگ نئیں
ہووی مر دراز کج سوچیں تا سہی مہمان کریندا اے تنگ نئیں
اعتبار چاء کر رَب اَقدس تے میں کملے دے اگلے رنگ نئیں
میرا چارہ ساز مجھ سے میرا حال پوچھتے ہیں وہی اَشک ہیں مسلسل وہی میری بے زبانی
کہ نہ جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ثانی اُسے ڈھونڈنے میں ہم نے
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے دیار دستک دی ہے میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
میں فنا کے گھاٹ پر ہوں میری سانس رک چلی ہے میری یہ صدا بچے گی میرے درد کی نشانی
کہ نہ جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ثانی اُسے ڈھونڈنے میں ہم نے
خبر کرو ونج نال مبارک آکھو آس تینڈی اج پج گئی
تینڈے ہجر فراق سفاک دے وچ آکھو جنڈ آڈھے دی چج گئی
جنہوں ختم کرن دی ضد ھئی آ نہوں کھا ظلمات دی گج گئی
بھاویں ماتم بھاویں جشن منا تینڈے عشق دی شمع بجھ گئی
چلے آؤ آ کے دیکھو یہ اداسیوں کا منظر کہ لحد بھی بے نشان ہے ہوئی بات پرانی
کہ نہ جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ثانی اُسے ڈھونڈنے میں ہم نے
ہم نے کروٹوں میں جوانی گذار دی حسرت سے بزم غیر کا در دیکھتے رہے
وہ جنبش نقاب کا منظر نہ پوچھئے کیا دیکھنا تھا اپنا جگر دیکھتے رہے
ہے عجب سی بات لیکن تضاد روبرو ہے وہی میری جاں کے دشمن وہی دل کے یار جانی
کہ نہ جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ثانی اُسے ڈھونڈنے میں ہم نے
|