گیت نمبر:244 گیت:عہد اے گم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو
شاعر:متفرق کمپنی:پی ایم سی البم:پی ایم سی 394
وہ چاندنی راتیں گئی اور وہ ملاقاتیں گئی رنگ بدلا یار کا وہ پیار کی باتیں گئی
اللہ اللہ کہہ کے بس اک آہ بھرنا رہ گیا وہ دعائیں وہ نمازیں وہ مناجاتیں گئی
راہ و رسمِ دوستی کا علم تو ہے لیکن حفیظؔ ابتدائے شوق کی لمبی ملاقاتیں گئی
عہد گم گشتہ کی تصویر دِکھاتی کیوں ہو ایک آوارہ اِے منزل کو ستاتی کیوں ہو
وہ حسین عہد جو شرمندہ اِے اِیفا نہ ہوا اُس حسین عہد کا مفہوم سکھاتی کیوں ہو
عہد اِے گم
زندگی شعلہ اے بیباک بنا لو اَپنی خود کو خاکستر اِے خاموش بناتی کیوں ہو
ایک آوارہ اِے منزل کو
ایک سرکش سے محبت کی تمنا رکھ کر خود کو آئین کے پھندوں میں پھنساتی کیوں ہو
اِیک آوارہ اِے منزل کو ستاتی
میں تصفف کے مرائل کا نہیں ہوں کائل
اک بیوفا سے پیار کیا ہائے کیا کیا یوں دل کو داغدار کیا ہائے کیا کیا
بہذاد ایک دل تھا جو کونین سے عزیز نظر نگائے یار کیا ہائے کیا کیا
میں تصفف کے مرائل کا نہیں ہوں قائل میری تصویر پہ تم پھول چڑھاتی کیوں ہو
اِیک آوارہ اِے منزل کو ستاتی
میں تقدس کو تمدن کا سمجتھا ہوں فریب تم رَسومات کو اِیمان بناتی کیوں ہو
اِیک آوارہ اِے منزل کو ستاتی
کون کہتا ہے کہ آئیں ہیں مصاہب کا علاج
دیکھنا بھی تو اُنہیں دور سے دیکھا کرنا شیوہ اے عشق نہیں حُسن کو رسوا کرنا
کون کہتا ہے کہ آئیں ہیں مصاہب کا علاج جان کو اپنی اب روگ لگاتی کیوں ہو
اِیک آوارہ اِے منزل کو ستاتی
جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال
میرے پاس سے وہ گذرے میرا حال تک نہ پوچھا میں یہ کیسے مان جاؤں کے وہ دور جا کے روئے
کہیں سیفؔ راستے میں وہ ملیں تو اُن سے کہنا میں اُداس ہوں اکیلا میرے پاس آ کے روئے
جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال
مجھے تسلیم ہے تو نے محبت مجھ سے کی ہو گی زمانے مگر اِظہار کی مہلت نہ دی ہو گی
میں اپنے آپ کو سُلگا رہا ہوں اس توقع پر کبھی تو آگ بھڑکے گی کبھی تو روشنی ہو گی
جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال
پھر میری یاد میں یوں اَشک بہاتی کیوں ہو
گرمئی اے حسرت اے ناکام سے جل جاتے ہیں اور ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوہ اِے اَرباب اِے وَفا جن کو جلنا ہے وہ آرام سے جل جاتے ہیں
اور جب بھی آتا ہے تیرا نام میرے نام کے ساتھ جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتے ہیں
اور شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال
پھر میری یاد میں یوں اَشک بہاتی کیوں ہو
ایک آوارہ اِے منزل کو ستاتی
نگائیں پھیر لے کوئی تو صدمہ کم نہیں ہوتا بہار آ کے چلی جائے تو کس کو غم نہیں ہوتا
بس اب تو دامن دل چھوڑ دو بیکار امیدو کہ ہم سے دل کے ارمانوں کا اب ماتم نہیں ہوتا
تم میں ہمت ہے تو دُنیا سے بغاوت کر لو ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو
ایک آوارہ اِے منزل کو ستاتی
شباب و شوق کا اَپنا بھی اِک زَمانہ تھا خبر نہیں وہ حقیقت تھی یا فسانہ تھا
نصیب اب تو نہیں خاک بھی نشمین کی اور لدا ہوا کبھی پھولوں سے آشیانہ تھا
تم میں ہمت ہے تو دُنیا سے بغاوت کر لو ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو
ایک آوارہ اِے منزل کو ستاتی
|