گیت نمبر:243 گیت:فنا کے بعد بھی مجھ کو ستا
شاعر:قمرجلالویؔ (متفرق) کمپنی:پی ایم سی البم:پی ایم سی 394
مدتیں ہو گئی خطا کرتے شرم آتی ہے اب دُعا کرتے شکستہ مقبروں پہ ٹوٹتی راتوں کو اِک لڑکی
لیے ہاتھوں میں بربت جوگ میں کُچھ گنناتی ہے کہا کرتے ہیں چرواہے کہ جب رُکتے ہیں گیت اُس کے
تو اِک تازہ لحد سے چیخ کی آواز آتی ہے
فنا کے بعد بھی مُجھ ستا رہا ہے کوئی نشان بھی قبر کا میری مٹا رہا ہے کوئی
میری قسمت میں کِسی پیڑ کا سایا نہ تھا خشک پتوں کا بھی راہوں میں نشان ملتا نہ تھا
جِس نے میری سمت دیکھا آبدیدہ ہو گیا میں نے تو چہرے پہ غم کا مرثیہ لکھا نہ تھا
اُن لبوں نے آ کے یہ احساس بخشا ہے مُجھے چاند کے ہونٹوں کو میں نے آج تک چوما نہ تھا
خشک پتوں کی طرح میں بھی کبھی اُڑ جاؤں گا وقت کی ٹہنی پہ میں یہ سوچ کر بیٹھا نہ تھا
نشان بھی قبر کا میری مٹا رہا ہے کوئی فنا کے بعد بھی مُجھ ستا رہا ہے کوئی
میرے خدا مجھے تھوڑی سی زندگی دے دے
کِس کو گمان ہے اب کے میرے ساتھ تُم بھی تھے ہائے وہ روز و شب کہ میرے ساتھ تم بھی تھے
یادش بخیر عہد اے گذشتہ کی صحبتیں اِک دور تھا عجب کہ میرے ساتھ تُم بھی تھے
بے مہریے حیات کی شدت کے باوجود دِل متمہن تھا جب کہ میرے ساتھ تم بھی تھے
اک خواب ہو گئی ہے راہ و رسم و دوستی اک وہم سا ہے اب کہ میرے ساتھ تم بھی تھے
میرے خدا مجھے تھوڑی سی زندگی دے دے اداس میرے جنازے سے جا رہا ہے کوئی
فنا کے بعد بھی مُجھ ستا رہا ہے کوئی
اے میری حسرتوں ارمان ذرا ٹھہر جاؤں
محبت کرنے والے کم نہ ہوں تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
حفیظؔ ان سے میں جتنا بدگمان ہوں وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے
اے میری حسرتوں ارمان ذرا ٹھہر جاؤں کہ بے نقاب تصور میں آ رہا ہے کوئی
نشان بھی قبر کا میری مٹا رہا ہے کوئی
شب غم کی تیرگی میں میرا دل نہ ڈوب جائے کوئی چاند سے یہ کہہ دے میرے ساتھ ساتھ آئے
سر بزم مسکرا کر میرا حال سننے والے میرا حال سنتے سنتے تیری آنکھ بھر نہ آئے
میری داستانِ غم ہے ذرا دل لگا کے سننا میری داستان میں تیرا کہیں نام آ نہ جائے
میرے دل کی دھڑکنوں کی شب و روز یہی دعا ہے کوئی بھول کر بھی ساجدؔ کسی سے دل لگائے
اندھیری رات کے تارو نہ جلملاؤ تم خدائی سو گئی آنسو بہا رہا ہے کوئی
نشان بھی قبر کا میری مٹا رہا
ہوا جو گوہر غریباں میں جو ایک روز گذر
تو اس جگہے مجھے اک تازی قبر آئی نظر
جو پڑھ کے فاتحہ چلنے لگا تو میں نے سنا
با زیر کے قبر کوئی کہہ رہا تھا رو رو کر
فرشتوں عرش سے لا لا کے پھول برساو قمرؔ کی قبر کو دُلہن بنا رہا ہے کوئی
فنا کے بعد بھی مُجھ ستا رہا ہے کوئی نشان بھی قبر کا میری مٹا رہا ہے کوئی
|