گیت نمبر:241 گیت:آکر ہماری قبر پر تُم نے جومسکرا دیا
شاعر:متفرق کمپنی:آر جی ایچ والیم:11
گریباں چاک کیے پھر رہا ہوں گُلشن میں گُلوں کی شاخ سے بچھڑا ہوا گلاب ہوں میں
بہار رُوٹھ گئی اِک فریب دِے کر مُجھے مُجھے نہ دیکھو کہ اُجڑا ہوا شباب ہوں میں
وے پیسہ چاہ کھوٹا
گلیاں اِچ روندا ڈٹٹھم میلے کپڑے تے قد چھوٹا
ہم اِہل وَفا حُسن کو رُسوا نہیں کرتے پردہ بھی اُٹھے رُخ سے تو دِیکھا نہیں کرتے
کر لیتے ہیں دِل اَپنا تصور ہی سے روشن مانگوں کے چراغوں سے اُجالا نہیں کرتے
بنا بنا کے جو دُنیا مٹائی جاتی ہے ضرور کوئی کمی ہے جو پائی جاتی ہے
جب اَجنبی کوئی آتا ہے اُن کی محفل میں تو اِیک شمع اُسی دَم جلائی جاتی ہے
جلا کے شمع وہ فوراً بُجھا بھی دیتے ہیں دوھویں کی سمت پھر اُنگلی اُٹھائی جاتی ہے
دوھواں دکھا کے وہ کہتے ہیں آنے والے سے کہ عاشقوں کی یہ حالت بنائی جاتی ہے
وہ سر کھولے ہماری لاش پر دِیوانہ وار آئے اِسی کو موت کہتے ہیں تو یارب بار بار آئے
آ کر ہماری قبر پر تُو نے جو مُسکرا دِیا بجلی چمک کے گِر پڑی سارا کفن جلا دِیا
پہلے تو پیس پیس کر سُرما میرا بنا دِیا
مجھے موت دِی کہ حیات دِی یہ نہیں سوال کے کیا دِیا
تیری اِک نگاہ اِے ناز نے کوئی فیصلہ تو سُنا دِیا
میرے گھر کی شمع گواہ ہے کٹی رات کس پش و پیش میں
کبھی آہ کہ کبھی خط لکھا کبھی خط کو لکھ کے جلا دِیا
پہلے تو پیس پیس کر سُرما میرا بنا دِیا آئے ہو حال پوچھنے جب خاک میں مِلا دِیا
آ کر ہماری
چین سے سو رہا تھا میں اُوڑے کفن مزار میں
اِس خستہ حال مزار تُوں ہٹ وَنج اِے حُسن دِے مُلک دَا شاہ اِے
ہی وَاسطہ اَلماں وَالے دَا گِھن ہتھ تُربت توں چاہ اِے
اُوں ویلے کتھے ہائیں سمجھ بے وارث میکوں غیر گے دَفنا اِے
نہ رو خورشیدؔ دی قبر اُتے تے نہ کر ہُنڑ شرن گناہ اِے
چین سے سو رہا تھا میں اُوڑے کفن مزار میں یہاں بھی ستانے آ گے کِس نے پتا بتا دِیا
آ کر ہماری
سامعین شعر عرض اِے
جونپھڑے میں فقیر کے اِس کے سِوا رَکھا ہے کیا فرش نظر بچا دِیا تکیہ اے دِل لگا دِیا
آ کر ہماری قبر پر
میرا تمھارا فیصلہ ہو گا خدا کے سامنے تُم نے جو تیغ کینھچ لی میں نے بھی سر جُھکا دِیا
آ کر ہماری
جاؤ سدھاروں میری جان تُم پر خدا کی ہو اَماں بچھڑے ہوئے ملیں گے پھر قسمت نے گر مِلا دِیا
آ کر ہماری قبر پر تُو نے جو مُسکرا دِیا بجلی چمک کے گِر پڑی سارا کفن جلا دِیا
آ کر ہماری
|