گیت نمبر:237 گیت:دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے
شاعر:متفرق کمپنی:آر جی ایچ والیم:32
عشق میں دِل کا تماشا نہیں دیکھا جاتا ہم سے ٹوٹا ہوا شیشہ نہیں دِیکھا جاتا
اَپنے حصے کی خوشیاں میں لُٹا دُوں میں تجھ پر تیرا اُترا ہوا چہرہ نہیں دِیکھا جاتا
آپ کو میں نے بٹھایا تھا کبھی ڈُولی پر آپ سے میرا جنازہ نہیں دیکھا جاتا
کیسی غلطی شباب کر بیٹھا دِل میرا اِنتخاب کر بیٹھا
یہ سمجھ کر کہ زِندگی تُم ہو زندگانی خراب کر بیٹھا
بن گیا روگ زندگی کے لیے دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے
جو نہ کرنا تھا وہ بھی کر ڈالا ہم نے ظالم تیری خوشی کے لیے
دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے
مُجھ کو جینے کی آرزو تو نہیں جی رہا ہوں تیری خوشی کے لیے
دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے
آپ کی مانگ میں ستارے ہیں
نہ پوچھ مُجھ سے میرے صبر کی وُسط کہاں تک ہے ستا کر دِیکھ لے ظالم تیری طاقت جہاں تک ہے
ستم گر تُجھ سے اُمیدِ کرم ہو جنہیں ہو گی ہم میں تو دِیکھنا ہے تو ظالم کہاں تک ہے
آپ کی مانگ میں ستارے ہیں ہم ترستے ہیں روشنی کے لیے
دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے
سارے جھگڑے ہی زِندگی تک ہیں کون مرتا ہے پھر کِسی کے لیے
دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے
رُخ سے آنچل کو ہَٹا ہی دو جاناں چاند ہوتا ہے چاندنی کے لیے
دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے
اہل دِل اُس کو دِل نہیں کہتے جو تڑپتا نہ ہو کسی کے لیے
دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے
سامعین شعر عرض ہے
تُم فرشتوں کی بات لے بیٹھے ہم ترستے ہیں آدمی کے لیے
دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے دِل لگایا تھا دِل لگی کے لیے
|