گیت نمبر:231 گیت:اِدھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا اُدھر
شاعر:متفرق کمپنی:پی ایم سی والیم:پی ایم سی349
ترکِ اُلفت پہ تو حالات نے مجبور کیا پر تیری یاد بھی کم ہو یہ ضروری تو نہیں
سجدہ اے دِل کو ہے اِک تیری ہی چوکھٹ کی تلاش ہر جگہ سر میرا خم ہو یہ ضروری تو نہیں
کیا خاک مداوہ غمِ ہجر کرو گی تُو صدمہ اِے فُرقت کو سمجھ ہی نہیں سکتی
اور عذراؔ میرا دعوہ ہے وہ آہیں گی ہما دانش تو عشق کی فطرت کو سمجھ ہی نہیں سکتی
اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا اُدھر زِندگی اُن کی دُلہن بنے گی
جوانی پہ میری ستم ڈھانے والو ذرا سوچ لو کیا کہے گا زمانہ
اِدھر میرے اَرمان کفن پہن لیں گے اُدھر اُن کے ہاتھوں پہ مہندی سجے گی
وہ پردے کے پیچھے میں پردے کے آگے نہ وہ آہیں آگے نہ میں جاؤں پیچھے
وہ آ گے بڑھیں گے تو کُچھ بھی نہ ہو گا میں پیچھے ہٹوں گا تو دُنیا ہسے گی
نہ تُم آ سکو گے نہ کُچھ بات ہو بہت دُکھ بھری چاندنی رَات ہو گی
ستارے سے برسیں گے پلکوں پہ جِس دَم بہت ہی اَنوکھی سی برسات ہو گی
آؤ گھڑی دو گھڑی ہم مِل کے مُسکرا لیں خدا جانیں پھر کِب ملاقات ہو گی
اَزل سے محبت کی دُشمن ہے دُنیا کہیں دو دِلوں کو ملنے نہ دے گے
یہ پروگرام آپ کی خدمت میں پی ایم سی کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے۔
اَزل سے محبت کی دُشمن ہے دُنیا کہیں دو دِلوں کو ملنے نہ دے گے
اِدھر میرے دِل پر خنجر چلے گا اُدھر اُن کے ماتھے پہ بندیاں سجے گی
|