گیت نمبر:226 گیت:اِدھر زِندگی کا جنازہ اُٹھے گا
شاعر:تابش دھلوی (متفرق) کمپنی:مووی بَکس(لوک ورثا) والیم:2
غم میں جہاں کے فسانے تلاش کرتے ہیں یہ فِتنہ گر تو بہانے تلاش کرتے ہیں
یہ اِنتہا ہے جنونِ حوس پرستی کی کہ پرائے گھر میں خزانے تلاش کرتے ہیں
اِدھر زِندگی کا
نغمہ اِے عشق سناتا ہوں میں اِس شان کے ساتھ رَقص کرتا ہے کعبہ میرے وَجدان کے ساتھ
ہے میرا ذوقِ جنوں کفروخرد کی ذد میں اِے خدا اَب تو اُٹھا لے مُجھے اِیمان کے ساتھ
اِدھر زِندگی کا
ہم تو تِنکے چُن رہے تھے آشیانے کے لیے آپ سے کِس نے کہا بجلی گِرانے کے لیے
ہاتھ تھک جائیں گے کیوں پیس رہے ہو مہندی خون حاضر ہے ہتھیلی پہ لگانے کے لیے
عشق کو
اِدھر زِندگی کا جنازہ اُٹھے گا
کیا کیجیے شکوہ دُوری کا مِلنا بھی غذب ہو جاتا ہے جب سامنے وہ آ جاتے ہیں اِحساس اَدب ہو جاتا ہے
معلوم ہے دِل کی فتنہ گری پھر بھی تو نبھانا پڑتا ہے اِس عشق میں اَکثر دُشمن کو سینے سے لگانا پڑتا ہے
عشق کو دَردِ سر کہنے والو سُنو کُچھ بھی ہو ہم نے یہ دَدر سر لے لیا
وہ نگاہوں سے بچ کر کہاں جائیں گے اَب تو اُن کے محلے میں گھر لے لیا
آئے بَن ٹھن کے شہر خاموشاں میں وہ قبر دیکھی جو میری تو کہنے لگے
اَرے آج اِتنی تو اِس کی ترقی ہوئی ایک بے گھر نے اَچھا سا گھر لے لیا
اِدھر زِندگی کا جنازہ اُٹھے گا اُدھر زِندگی اُن دُلہن بنے گی
قیامت سے پہلے قیامت ہے یارو میرے سامنے میری دُنیا لُٹے گی
جوانی پہ میری ستم ڈھانے والوں ذرا سوچ لو کیا کہے گا زمانہ
اِدھر میرے اَرمان کفن پہن لیں گے اُدھر اُن کے ہاتھوں پہ مہندی لگے گی
اِدھر زِندگی کا
اَزل سے محبت کی دُشمن ہے دُنیا کہیں دو دِلوں ملنے نہ دے گی
اِدھر میرے دِل پر خنجر چلے گا اُدھر اُن کے ماتھے پہ بِندیاں سجے گی
اِدھر زِندگی کا
اَبھی اُن کے ہنسے کے دِن وہ ہنس لیں اَبھی میرے رونے کے دِن میں رو لوں
مگر ایک دِن اُن کو رونا پڑے کہ جِس دِن بھی میری میت اُٹھے گی
|