گیت نمبر:23 گیت:یوں میرے جنوں کی دُنیا میں کی ایسے
شاعر:نامعلوم (متفرق) کمپنی:آر جی ایچ والیم:4
نہ طبیبوں کی طلب ہے نہ دعا مانگی ہے نیند چاہوں تیری زُلفوں کی ہوا مانگی ہے
اور دُشمنوں ہاتھ اُٹھاؤ کہ میں جی یوں برسوں دوستوں نے میرے مرنے کی دُعا مانگی ہے
یوں میرے جنوں کی دُنیا میں کی ایسے برائی لوگوں نے
یا تُم نے مجھے برباد کیا یا آگ لگائی لوگوں نے
اِک میرے لہو کی مہندی سے رنگینی بڑھائی ہاتھوں کی
او مہندی مفت خرید نہ کر تے نہ اِتنا خرچ ودھا تُوں
اِے خون جگر دا حاضر ہی ونج رج رج مہندیاں لا توں
میڈے اُجڑن دا ارمان نہ کر اِک وار میکوں آزما تُوں
میں تاں لکھ واری جان قُربان کریساں تیڈی اِک اِک یار ادا توں
اِک میرے لہو کی مہندی سے رنگینی بڑھائی ہاتھوں کی
میں نے کہا کہ درد ہے اُس نے کہا ہوا کرئے میں نے کہا کہ مرتا ہوں اُس نے کہا مرا کرئے
میں نے کہا کہ سانس بھی رُک رُک کے آ رہی ہے آج ایسا نہ ہو کہ چل بسوں اُس نے کہا خدا کرئے
اِک میرے لہو کی مہندی سے رنگینی بڑھائی ہاتھوں کی
جِس روز شہر میں قتل ہوا تو عید منائی لوگوں نے
غم کا احساس جنہیں ہوتا ہے رو سکتے ہیں اور غیر کے اَشک بھی دَامن کو بھگو سکتے ہیں
نیند آتی نہیں پھولوں پہ خرت مندوں کو ارے ہم تو دِیوانے ہیں کانٹوں پہ بھی سو سکتے ہیں
او بام پہ بھی آئے تو کیا ہم سے تو اُدھر دیکھا نہ گیا
شبِ فراق میں کی ہے میں نے نیند میں بات کہ اَب تُو کیوں نہیں آتی مُجھ غریب کے پاس
تو ہنس کے بولی کہ تُو ہی بتا دے اے کم بخت میں تیرے پاس رہوں یا تیرے نصیب کے پاس
او بام پہ بھی آئے تو کیا
او کیچ دے راہ میکوں ڈَک نہ مائے تے میں ونجناں کیچ ضرور اے دل مجبور اے
او کیچ دی ریت اے طور دا سُرمہ پاویں تتڑی وانگ تندور اے دل مجبور اے
لا وے چوٹ وے ہوت غضب دی ہویا دل دا شیشہ چُور اے دل مجبور اے
او خان بلوچ دے باجوں اَج میڈا بچنا ہو گیا دور اے دل مجبور اے
کوئی بازار نہ لونڑ ہوندے
اُجڑ کے لائی ہو وی آ تینوں قدر معلوم ہوندے
او بام پہ بھی آئے تو کیا
قسم خدا دی میکوں پیارا لگدا ایں شالا وسدا راویں میڈا دلبر ماہی تی تیڈے نال میڈی جند رَل گئی
او مُدت ہوئی تیڈے عشق دے وچ میڈی سوہنی جوانی گل گئی
سڑ ماس گیا ہِم عشق تیڈے میکوں مار مُکایا دل ہجر فراق وچ جل گئی
او ظفرؔ غریب کوں شک پوندا اے تیڈی دِل وی اساں تُوں چل گئی
او بام پہ بھی آئے تو کیا ہم سے تو اُدھر دیکھا نہ گیا
پردہ تو ہماری خاطر تھا پر آنکھ لڑائی لوگوں نے
اُن کا بھی ہوں میں احسان مند
آیا بدل سے ٹل ویسی
تھوڑے تھوڑے دُکھدئے آن کدی بھانبڑ بھل ویسی
اُن کا بھی ہوں میں احسان مند دُنیا کا بھی ہوں میں شکر گذار
تُم نے تو مارا تیر رے نظر سے پر لاش اُٹھائی لوگوں نے
|