گیت نمبر:207 گیت: اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو
شاعر:اُردو غزل کمپنی:این ایم سی والیم:164
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو یا تنہائی سمجھے کوئی دیوانہ جانے کوئی سودائی
نغموں کا بھرم ٹوٹا میخانے کا دَر چُھوٹا جب ساز چڑا کوئی آواز تیری آئی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو یا تنہائی
بارات کے رستے میں تھا ایک جنازہ بھی ڈولی نہ رُکھی تیری روتی رہی شہنائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو یا تنہائی
تُو آئے تُجھے دیکھوں اور جاں سے گذر جاؤں اِس آس پہ زندہ ہے اب تک تیر ا شیدائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو یا تنہائی
اِلزام ہر اِک ہنس کے ہم نے سہا بیگانہ ہونے نہ دی چاہت کی ہم نے کبھی رُسوائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو یا تنہائی
|