گیت نمبر:206 گیت:اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ
شاعر:نامعلوم البم:لایؤ پروگرام کمپنی:پرانی یادیں
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو یا تنہائی سمجھے کوئی دیوانہ جانے کوئی سودائی
نغموں کا بھرم ٹوٹا میخانے کا دَر چُھوٹا جب ساز چڑا کوئی آواز تیری آئی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو یا تنہائی
تُو آئے تُجھے دیکھوں اور جاں سے گذر جاؤں اِس آس پہ زندہ ہے اب تک تیرا شیدائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو یا تنہائی
اِلزام ہر اِک ہنس کے ہم نے سہا بیگانہ ہونے نہ دی چاہت کی ہم نے کبھی رُسوائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو یا تنہائی
پہلے سے مراسم تو باقی نہ رہے پھر بھی جب زخم لگا کوئی کیوں یاد تیری آئی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو یا تنہائی
اُس شہر کا میخانہ دُنیا سے نرالا تھا ساقی بھی تھا ہرجائی مہہ خار بھی ہرجائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو یا تنہائی
|