گیت نمبر:110 گیت:میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل
شاعر:متفرق کمپنی:آر جی ایچ والیم:8
آرزو یہ ہے کہ اُنکی ہر نظر دیکھا کریں ہم ہی اُن کے سامنے ہوں وہ جدھر دیکھا کریں
اِک طرف ہو ساری دُنیا اِک طرف صورت تیری ہم تجھے دنیا سے ہو کر بےخبر دیکھا کریں
میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے نہ جھکاؤ تم نگائیں کہیں رَات ڈھل نہ جائے
میرے اشک بھی ہیں اس میں
ہم غریبوں کی بات ہی کیا تھی بھار تھے تو بُھلا دِیا ہوتا
دُنیا داری بھی فرض تھی تم پر ایک آنسو بہا دیا ہوتا
میرے اَشک بھی ہیں اِس میں یہ شراب اُبھل نہ جائے
میرا جام چھونے والے تیرا ہاتھ جل نہ جائے
میں نظر سے پی رہا ہوں
میری زندگی کے مالک
نہ پوچھ کیسے گذرتی ہے زندگی اِے دوست بڑی طویل کہانی ہے پھر کبھی اِے دوست
اور سیاہ نصیب نہ مجھ سا بھی ہو زمانے میں تیرے بغیر گذرتی ہے چاندنی اِے دوست
میری زندگی کے مالک میرے دِل پہ ہاتھ رَکھ دِے
تیرے آنے کی خوشی میں میرا دم نکل نہ جائے
میں نظر سے پی رہا ہوں
اِبھی رات کچھ ہے باقی
پھر بھی قسمت سے جام ملتا ہے ہر قدم پر شراب خانہ سہی
میرے جینے پہ اِعتراز نہ کر کہ یہ زمانہ تیرا زمانہ سہی
اَبھی رَات کچھ ہے باقی نہ نقاب اٹھاؤ ساقی تیرا رِند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے
میں نظر سے پی رہا ہوں
میں بنا تو لوں نشمین
میں نے بخشی ہے تاریکیوں کو ضیا اور خود اِک تجلی کا محتاج ہوں
روشنی دینے والے کو بھی کم سے کم ایک دِیا چاہے اَپنے گھر کے لیے
اِے شکیل ان کی محفل سے کیا ہے ملا اور کچھ بڑھ گہیں دِل کی محرومیاں
سب کی جانب نگاہ کرم ہی رہی ہم ترستے رہے اِک نظر کے لئے
میں بنا تو لوں نشمین پر کسی شاخ گل پہ لیکن کہیں ساتھ آشیاں کے یہ چمن بھی جل جائے
میں نظر سے پی رہا ہوں
اِسی خوف سے نشیمن
جس پہ تھا ہر گھڑی نزول بھلا وہ ہمارا غریب خانہ تھا
تجھکو ہر عیش سازگار رہے اپنی قسمت میں غم اُٹھانا تھا
اِسی خوف سے نشمین میں بنا سکا نہ انورؔ یہ نگاہ اہل گلشن کہیں پھر بدل نہ جائے
میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے
نہ جھکاؤ تم نگائیں کہیں رَات ڈھل نہ جائے
|