گیت نمبر:108 گیت:اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا
شاعر:متفرق کمپنی:ایس آر سی والیم:1
توں نے آنکھوں سے مجھ کو رام کیا آنکھ والوں میں خوب نام کیا
اور اپنے ساجن کی لوٹ کر خوشیاں غیر کو توں نے شاد کام کیا
آ ماہی تیکوں رَب گھن آنے تے میڈی جان کوں ڈاڈا دُکھ اِے
خبر نہیں اُنہاں سجنڑاں دی ڈیکھاں ول سُم کیڑی رُت اِے
میڈی جندری لٹکی تے نالے وَسدے اُجڑے تے ہر آس گئی اَج مک اِے
غلام فریدہؔ مل سجن جو پووُن تے مِٹ ونجم اَندر دِے دُکھ اِے
اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا اُدھر زِندگی اُن کی دُلہن بنے گی
قیامت سے پہلے قیامت ہے یارو میرے سامنے میری دُنیا لٹے گی
جوانی پہ میری ستم ڈھانے والو ذرا سوچ لو کیا کہے گا زمانہ
میں نے کہا کے دَرد ہے اُس نے کہا ہوا کرئے
میں نے کہا کہ مرتا ہوں اُس نے کہا مرا کرئے
میں نے کہا سانس بھی رُک رُک کے آ رہی ہے آج
ایسا نہ ہو چل بسوں اُس نے کہا خدا کرئے
جوانی پہ میری ستم ڈھانے والو ذرا سوچ لو کیا کہے گا زمانہ
اِدھر میرے اَرمان کفن پہن لیں گے اُدھر اُن کے ہاتھوں پہ مہندی لگے گی
وہ پردے کے پیچھے میں پردے کے آگے نہ وہ آئیں آگے نہ میں جاؤں پیچھے
نہ طبیبوں کی طلب ہے نہ دعا مانگی ہے نیند چاہوں تیری زُلفوں کی ہوا مانگی ہے
اور دشمنوں ہاتھ اُٹھاؤ کہ میں جیوں برسوں دوستوں نے میرے مرنے کی دعا مانگی ہے
محیتھوں ساری دُنیا پچدی اے کیویں دلبر تیتھوں رُٹھا
بےجُرم ساکوں معلوم تینداں اے کیں چکر چلایا ایں پُٹاہ
تیڈے منہ چوں شکوہ سُنڑیا ناہی تھوڑے مدت دا وطعنوں اے مٹٹا
رب جانے کیں جیا قاتل اِے جس آڈھے خانؔ نُوں کُٹھا
وہ پردے کے پیچھے میں پردے کے آگے نہ وہ آئیں آگے نہ میں جاؤں پیچھے
وہ آگے بڑھیں کے تو کچھ بھی نہ ہو گا میں پیچھے ہٹوں گا تو دُنیا ہنسے گئی
اَزل سے محبت کی دُشمن ہے دُنیا کہیں دو دِلوں کو ملنے نہ دے گی
اے دوست میڈے اِک گل یاد رکھیں میڈی گل نوں دِلوں بلاونڑاں نہیں
میڈی موت دی خبر جد پہنچی جلدی آویں تے مول شرمانواں نہیں
آویں قبر اُتھے تیڈی مہربانی لے کے نال رقیباں نوں آوانوں نہیں
اِیویں زندہ جلایا یار میکوں مسلمان آن مردہ جلانواں نہیں
اَزل سے محبت کی دُشمن ہے دُنیا کہیں دو دِلوں کو ملنے نہ دے گی
اِدھر میرے دِل پر خنجر چلے گا اُدھر ان کے ماتھے پہ بندیا سجے گی
اِدھر زندگی کا
اَبھی اُنکے ہسنے کے دن ہیں وہ ہنس لیں اَبھی میرے رونے کے دِن ہیں میں رو لوں
غم کا اِحساس جنہیں ہوتا ہے رو سکتے ہیں غیر کے اَشک بھی دَامن کو بگو سکتے ہیں
نیند آتی نہیں پھولوں پہ خرت مندوں کو اَرے ہم تو دیوانے ہیں کانٹوں پہ بھی سو سکتے ہیں
اَبھی اُنکے ہسنے کے دن ہیں وہ ہنس لیں اَبھی میرے رونے کے دِن ہیں میں رو لوں
مگر ایک دِن اُن کو رونا پڑے گا کہ جس دِن بھی میری میت اُٹھے گی
اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا اُدھر زندگی اُن کی دُلہن بنے گی
قیامت سے پہلے قیامت ہے یارو میرے سامنے میری دُنیا لٹے گی
|