گیت نمبر:104 گیت:شیشہ ٹوٹا شور ہوا دل ٹوٹا آواز
شاعر:فدا ملکؔ کمپنی:این ایم سی والیم:159
شیشہ ٹوٹا شور ہوا دِل ٹوٹا آواز نہ آئی دِکھلا پائے نہ دُنیا کو ہم نے اِیسی چوٹ ہے کھائی
آواز نہ آئی
غم تو نہیں ہے اس کا راہ میں کوئی چھوٹا اِتنی خوشی ہے لیکن ایک بھرم تو ٹوٹا
اب تو یونہی جی لیں گے خود زخموں کو سی لیں گے
راہوں میں ہی لُٹ گے سارے پیار کی منزل کِس نے پائی
آواز نہ آئ
جنم جنم کا بندن پیار کا تو نے توڑا یادیں راہ گئی باقی تو نے کچھ نہ چھوڑا
تم تو میرے اپنے تھے تم تو میرے سپنے تھے عشق کیا تھا ٹوٹ کے تم سے اور سزا بھی کم نہ پائی
آواز نہ آئی
لَب پہ صنم ہیں آہیں غم تیرے مارا جاگ کے راتیں کاٹی ٹوٹتا دِیکھتا تار
دل سے یاد بھلا دو گے پیار کا دِیپ بُجھا دو گے تُم سے یہ امید نہ تھی او بیدردی ہرجائی
آواز نہ آئی
جیسا حسین تھا چہرہ کاش تو ایسا ہوتا دھوکا ہم نہ کھاتے دل پاگل نہ روتا
تنہا رِہنا مشکل ہے دَرد یہ سہنہ مشکل ہے بن کے فدا بھی جی رہتی ہیں چوٹ جگر پہ ایسی کھائی
آواز نہ آئی
|