گیت نمبر:101 گیت:ہم سے کسی کے بخت کا تارہ نہ ملا
شاعر:سیدانصرؔ کمپنی:این ایم سی والیم:159
ہم سے کسی کے بخت کا تارہ نہیں ملا بچھڑا جو ایک بار دوبارہ نہیں مِلا
کاغذ کی کشتیوں میں سواری کا شوق تھا اَب یہ شکایتیں ہیں کنارہ نہیں ملا
ہم سے کسی کے بخت کا تارہ نہیں ملا بچھڑا جو ایک بار دوبارہ نہیں مِلا
چاہا نہیں کسی کو بھی آپ کی طرح دُنیا میں کوئی آپ سا پیارا نہیں ملا
ہم سے کسی کے بخت کا تارہ نہیں ملا بچھڑا جو ایک بار دوبارہ نہیں مِلا
جانا یہی کہیں اِنہی لمحوں کی بھیڑ میں اِک خواب کھو گیا تھا ہمارا نہیں ملا
ہم سے کسی کے بخت کا تارہ نہیں ملا بچھڑا جو ایک بار دوبارہ نہیں مِلا
انصرؔ ہمارے وہم و گمان میں نہ تھا کہ تم یہ کہہ کیے چھوڑ دو گے سہارا نہیں ملا
ہم سے کسی کے بخت کا تارہ نہیں ملا بچھڑا جو ایک بار دوبارہ نہیں مِلا
|