Few Words About Atta Ullah Khan Niazi Sajid (Esakhailvi)
Atta Ullah Khan Niazi Sajid (Esakhailvi) was born on 19th August 1951 in a town called Esa Khel. This is situated in the district Mianwali of Pakistan. He belongs to the famous Niazi Pathan clan, therefore he was named in his childhood as Atta Ullah Khan Niazi. His showbiz fame got him known as Atta Ullah Khan (Esakhailvi).
He received his initial education at Esa Khel. Right from his childhood he had inner learning towards music and used to practice singing stealthily behind his parent's back. The moment they found out there was trouble for Atta. It resulted in him having been expelled from home. Instead of getting down it provided him an impetus to struggle to make a mark in life and came to conclusion this could only be achieved through education, so he worked in bits and pieces and continued his education and eventually graduated at Mianwali, at the same time he kept nourishing his childhood love of music which had contributed toward his family anger and revulsion and made his name to the extent that he was invited to do a show on Radio Pakistan Bahawalpur in 1972 and did a stage show as well in Mianwali the same year. These events made name for him and appeared on Pakistan Television in a very famous TV Programme called Nilam Ghar from Karachi. These performances projected him as an icon in the music field especially his Saraiki style of singing appealed to young and old alike.His followers were spread all over the world and demands were growing for him to be heard. Therefore his first foreign concert was organized and presented in England in 1980. After 20 years ruling of the hearts of Pakistanis and Punjabi-speaking people all over the world he entered film world and expressed his talents in 3 films and also sang geets in 8 films.
عطاء اللہ خان نیازی ساجد (عیسی خیلوی) کے بارے میں چند الفاظ
عطاء اللہ خان نیازی ساجد (عیسی خیلوی) 19 اگست 1951 کو عیسی خیل میں پیدا ہوئے۔ یہ علاقہ پاکستان کے ضلع میانوالی میں واقع ہے۔ انکا تعلق مشہور نیازی پٹھان قبیلہ سے ہے، اس لیے ان کا نام عطاء اللہ خان نیازی رکھا گیا۔ اپنی شوبز شہرت کی وجہ سے وہ عطاء اللہ خان عیسی خیلوی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم عیسی خیل میں حاصل کی، اپنے بچپن ہی سے انکا طبع موسیقی کی طرف تھا وہ اپنے والدین سے چھپ کر گانے کی مشق کیا کرتے تھے۔ جب ان کے والدین کو پتہ چلا تو انہوں نے انہیں گھر سے نکال دیا۔ اس واقع نے انہیں بددل نہ کیا بلکہ انکے دل میں مشہور ہونے کا شدید جذبہ بیدار کر دیا۔ انہیں یہ بھی احساس ہوا کہ وہ تعلیم کے بغیر اس مقصد کو نہیں پا سکیں گے۔ چنانچہ انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کیلئے کمر باندھ لی۔ حصول تعلیم کیساتھ ساتھ انہوں نے موسیقی کا جو جنون تھا وہ مراحل ترقی کی جانب انہیں گامزن کرتا رہا۔ اسکا اولین ثمرہ یہ نکلا کہ انہیں ریڈیو پاکستان بہاولپور 1972 میں ایک شو پیش کرنے کی دعوت دی گئی اور اسی سال میانوالی میں ایک سٹیج شو بھی کیا۔ وطن سے باہر انہوں نے پہلا کنسرٹ انگلستان میں کیا۔ بیس سال تک پاکستانیوں خصوصاّ پنجابی بولنے والے لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے کے بعد وہ فلمی دنیا میں آئے اور تین فلموں میں اپنی صلاحیت کا ثبوت دیا۔ انہوں نے آٹھ فلموں میں اپنے گیتوں کے ذریعے بھی مزید شہرت حاصل کی۔ عطاء اللہ خان نیازی ساجد (عیسی خیلوی) کا اولین پروفیشنل کیسٹ رحمت گراموفون ہاوس، فیصل آباد نے ریکارڈ کیا تھا اور اس کے بعد انکے البم درج ذیل کمپنیوں، پی ایم سی، این ایم سی، سونک، ہیرا، سرائیکی سر سنگت نے ریکارڈ کئے اور یوکے میں اورینٹل سٹار ایجنسی، مووی بکس اور ہائی ٹیک میوزک کمپنیوں نے ریکارڈ کیے۔
لیجنڈ گلوکار جناب عطاء اللہ خان نیازی ساجد (عیسیٰ خیلوی) (تحریر:وسیم سبطین آف چکوال)
19 اگست 1951 کو میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں پیدا ہوئے۔ فیصل آباد سے پرائیویٹ بی اے کیا، بچپن سے موسیقی کا شوق تھا، سکول کے زمانے میں نعتیں اور ترانے پڑھتے رہے۔ لالہ جی کے والد محترم احمد خان نیازی اور خاندان والے موسیقی کے سخت خلاف تھے، لالہ جی اپنے شوق کی تکمیل چھپ کر کرتے رہے۔ پروفیسر منور علی ملک صاحب کی کتاب ”درد کا سفیر“ میں لالہ جی کی ابتدائی گلوکاری کے حوالے سے بہت دلچسپ دلگداز اور درد بھری تحریریں درج ہیں۔ 1978 میں لالہ جی کی باقاعدہ ریکارڈنگ ہوئی اور چار کیسٹ مارکیٹ میں آئے۔
1. ادھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا
2. دل لگایا تھا دل لگی کیلیے
3. نکی جی گل توں رسدائیں
نے دھوم مچا دی۔ اس کے بعد لالہ جی کا فنی سفر شروع ہوا اور یہ سفر آج تک عروج پہ ہے۔ لالہ جی نے ابتداء میں اپنے علاقے کے خوبصورت شعراء کا کلام گایا، جن میں جناب آڈھا خان، پروفیسر منور علی ملک، مجبور عیسیٰ خیلوی، ملک سونا خان بیوس، فاروق روکھڑی، اظہر نیازی، عتیل عیسیٰ خیلوی، ناطق نیازی، خورشید حسنین شاہ، الحاج بری نظامی بڑے نام ہیں۔ بعد ازاں شاکر شجاع آبادی، جناب مظہر نیازی، نذیر یاد، استاد امیر، صابر بھریوں، افضل عاجز، ایس ایم صادق، ناز خیالوی، ایم افضل جمال، تنویر شاھد محمد زئی، محمود احمد، منشی منظور، بشیر چوہدری کا بھی کلام گایا۔ اس کے علاوہ فیض احمد فیض، احمد فراز، ساحر لدھیانوی، بہزاد لکھنوی، شکیل بدایونی، ابنِ انشاء، حسرت جے پوری، میر تقی میر، ظفر گورکھپوری، جگر مراد آبادی، جگن ناتھ آزاد، تلوک چند محروم، قتیل شفائی جیسے ادبی شعراء کو بھی بہت خوبصورت انداز میں گایا۔
وزیراعظم عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کیلیے بھی لالہ جی نے چار ترانے گائے۔ چار پاکستانی فلمیں اور ملی نغموں کے علاوہ لاتعداد حمد و نعتیں بھی پڑھیں۔ گیننز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں لالہ کا نام شامل ہے۔ صدارتی ایوارڈ براۓ حُسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ملکہء برطانیہ سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے علاوہ بہت سے ایوارڈ بھی لالہ جی کو حاصل ہیں۔
لیجنڈ گلوکار جناب عطاء اللہ خان نیازی ساجد (عیسیٰ خیلوی) (تحریر:وسیم سبطین آف چکوال)
لیجنڈ گلوکار عطاء اللہ خان نیازی ساجد (عیسیٰ خیلوی) 19 اگست 1951 کو میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں پیدا ہوئے۔ فیصل آباد سے پرائیویٹ بی اے کیا۔ بچپن سے موسیقی کا شوق تھا۔ سکول کے زمانے میں نعتیں اور ترانے پڑھتے رہے۔ لالہ کے والد محترم احمد خان نیازی مرحوم اور خاندان والے موسیقی کے سخت خلاف تھے، لالہ جی اپنے شوق کی تکمیل چھپ کر کرتے رہے۔ پروفیسر منور علی ملک صاحب کی کتاب ”درد کا سفیر“ میں لالہ کی ابتدائی گلوکاری کے حوالے سے بہت دلچسپ دلگداز اور درد بھرے واقعات تحریر ہیں۔
1978 میں لالہ جی کی باقاعدہ ریکارڈنگ ھوئی ۔چار کیسٹ مارکیٹ میں آئے۔
1۔ ادھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا (اردو غزل)
2۔ دل لگایا تھا دل لگی کیلیے (اردو غزل)
3۔ نکی جی گل توں رسدائیں (کافی)
نے دھوم مچا دی، اس کے بعد لالہ کا فنی سفر شروع ہوا اور یہ سفر آج تک عروج پہ ہے۔
لالہ جی نے ابتداء میں اپنے علاقے کے خوبصورت شعراء کا کلام گایا۔ جن میں جناب آڈھا خان، پروفیسر منور علی ملک، مجبور عیسیٰ خیلوی، ملک سونا خان بے وس، فاروق روکھڑی، اظہر نیازی، یونس نیازی، عتیل عیسیٰ خیلوی، مشتاق باسط، ابراھیم مسافر، خان عیسیٰ خان، ناطق نیازی، خورشید حسنین شاہ، اور الحاج بری نظامی بڑے نام ہیں۔ بعد ازاں حضرت خواجہ غلام فرید، حضرت شاہ حسین، بابا بُلہے شاہ، شاکر شجاع آبادی، مظہر نیازی، نذیر یاد، استاد امیر حسین امیر، صابر بھریوں، افضل عاجز، ایس ایم صادق، ناز خیالوی، ایم افضل جمال، تنویر شاھد محمد زئی، تنویر نازش، محمود احمد، منشی منظور، بری نظامی، بشیر چوہدری کا بھی کلام گایا۔
لالہ جی نے اس کے علاوہ فیض احمد فیض، احمد فراز، ساحر لدھیانوی، بہزاد لکھنوی، شکیل بدایونی، ابنِ انشاء، حسرت جے پوری، میر تقی میر، ظفر گورکھپوری، جگر مراد آبادی، داغ دھلوی، تابش کانپوری، امرچند قیس جالندھری، مرزا غالب، جگن ناتھ آزاد، تلوک چند محروم، اویس احمد دوراں، عبدالحمید عدم، قتیل شفائی جیسے صاحبِ دیوان شعراء کو بھی بہت خوبصورت انداز میں گایا۔
ملک کے مشہور موسیقاروں نے لالہ جی کے گیت و غزل کی دُھنیں بنائیں اور ان کی میوزک ارینجمنٹ کی، جن میں جناب محترم استاد صابر علی صاحب، افضل عاجز، استاد کالے خان، بخشی وزیر، جی اے چشتی، وجاھت عطرے، آفتاب تابو، مجاھد حسین، ماسٹر امین، چھکو لہری، منیر احمد کوکب، طارق طافو بڑے نام ہیں۔
لالہ جی کی آواز کو بہترین ریکارڈسٹ و ساؤنڈ انجینئرز نے بھی اپنے فن سے سامعین تک پہنچایا جن میں محمود احمد، محمد کاشف علی، محمد فاروق راؤ، محمد شہزاد چوھدری، الطاف حیدر اور سعید مغل شامل ہیں۔
لالہ جی نے چار پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا۔ اور کئی ملی نغمے اور ترانوں کے علاوہ لاتعداد حمد و نعت اور منقبت بھی پڑھیں۔
پوری دنیا میں سب سے زیادہ کیسٹ ریلیز ھونے اور 5000 کے قریب گیت و غزل گانے پہ لالہ جی کا نام گیننز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہے۔ صدارتی ایوارڈ براۓ حُسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ملکہء برطانیہ سے لائیو ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے علاوہ بہت سے ملکی و غیر ملکی ایوارڈ بھی لالہ کو حاصل ہیں۔ لالہ جی نے اردو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، ہندی اور ھِندکو 7 زبانوں میں گیت غزل دوھڑے گائے ھیں۔
لالہ جی کے گیت و غزلیں صرف عشق و محبت کا پیغام نہیں سادہ سے الفاظ میں معاشرے کے کافی پہلو شامل ہیں۔ کسی پردیسی کی اپنے دیس سے دوری ہو کسی ماں باپ کی اپنی جواں سالہ اولاد کی ناگہانی موت کا غم ہو، کسی مظلوم کیساتھ ناانصافی ہو، بےبس و لاچار معاشرے کا غریب اپنی غربت پہ نوحہ کناں ہو، غرضیکہ ہر موضوع پہ لالہ کی آواز شاعر کے احساسات و خیالات کو ترنم میں ڈھال کر 50 سال سے غم ہلکا کرنے کی مرہم بنتی رہی ہے۔ لالہ جی کی آواز کو سرائیکی بیلٹ کے شعراء کرام نے خوبصورت الفاظ دیئے جنہیں لالہ جی نے اپنی درد بھری آواز سے گایا اور یہی وجہ ہے کہ سننے والوں پہ آدھی صدی سے سحر طاری کیئے رکھا ہے۔
لالہ جتنے بڑے فنکار ھیں اس زیادہ اچھے انسان ہیں۔ لالہ جی نے پانچ شادیاں کیں جن میں تین سے نباہ نہ ہو سکا۔
Title | Description |
---|---|
Family Name | Atta Ullah Khan Niazi Sajid |
Showbiz Name | Atta Ullah Khan Esakailvi |
Place Of Birth | 19th August 1951 |
Education | Matric – Esa Khell |
Higher Education | F.A. – Faisalabad |
Graduation | B.A. Mianwali |
First Radio Program | Radio Pakistan Bahawalpur (1972) |
First TV Program | Neelam Ghar Karachi (1973) |
First song/ghazal | Kyoun Dita Hi Sakoon Rol |
First album | RGH Faisalabad Pakistan |
First Stage Show | Mianwali (1972) |
First Foreign Concert | England (1980) |
First Movie As A Singer | Siren |
First Movie As An Actor | Dil Lagi |
No. Of Movies As An Actor | Four Movies (Geo TV “Utho Jago Pakistan” 7th Jan 11) |
Playback Singing | Eight Movies |
Professional Cassette | Rehmat Gramophone House (RGH) Faisalabad |
Other Companies | Eagle, Sonic, Heera, PMC, NMC, Shalimar |
UK Companies | OSA, Hi~Tech Music, Moviebox, Birmingham |
Languages | Saraiki, Urdu, Punjabi, Pushto, Sindhi |
First Remix | Eh Nathli and Chimta Tan Wajda OSA (1987) |
First Remix Video | Mahi Wasey Mera Rohi - Hi-Tech Music (2003) |
Pride Of Performance | 1992 |
No Of Albums | 485 (Geo TV “Utho Jago Pakistan” 7th Jan 11) |
Favrt song/ghazal | Idher Zindagi Ka Janaza Uthay |
Favrt Dress | Shalwar Qameez |
Favrt Colour | Black and Blue |
Sitara-E-Imtiaz | 2019 |