Poet Name:

Munshi Manzoor Hussain

Author Name:

Waseem Sibtain

دل تے وچھوڑیاں دا بہوں بھار تھی گیا ہِے۞
منظور   زندگی  توں  بیزار  تھی  گیا ہے۞

آج کا موضوع ہے!!!     تھل کا شاعر!!!

میں بات کر رہا ہوں ضلع لیہ کے اس خوبصورت شاعر کی جس کے کلام میں تھل کی مٹی کی سُوندھی سُوندھی خوشبو آتی ہے۔ محرومیوں اور سسکتے جذبوں میں گُندھے الفاظ کی چاشنی ان کے کلام کا خاصہ رہی۔ ہجر فراق عشق و محبت کے علاوہ معاشرے کی محرومیوں کا ذکر ان کے کلام کا جُز رہا۔ میں نے یہ نام 1988ء میں لالہ عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی کیسٹ کے کور پہ لکھا ہوا پڑھا۔ اس کیسٹ میں اس نوجوان شاعر کے دو گیت تھے، جن میں سے ایک ٹائٹل گیت تھا۔ سادے الفاظ میں ہجر و فراق کے درد کو خوبصورتی کیساتھ قلم کی زبان دی گئی۔ دونوں گیتوں کو بےپناہ مقبولیت ملی اور ہر دردِ دل کی صدا بن گئے۔ ان دونوں گیتوں کے خالق منشی منظور حسین منظور تھے۔

منشی منظور حسین 15 فروری 1963ء کو ضلع لیہ میں پیدا ہوئے تھے۔ والد صاحب کا اسم گرامی محمد ابراہیم تھا۔ منشی صاحب نے تعلیمی میدان میں ہمیشہ کامیابی سمیٹی اور ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔ جب شاعری کا آغاز کیا تو اُس وقت لیہ میں دو شاعر آپ کے ہم نام بھی موجود تھے تو آپ نے "منشی" کو مستقل اپنے نام کا حصہ بنا لیا اور تخلص "منظور" چُنا۔ منشی صاحب نے ایک وکیل کیساتھ بطور "منشی" سات سال کام کیا لیکن بعد میں "محکمہ صحت" میں مستقل ملازمت اختیار کر لی۔ شاعری کا ذوق تھا، شفیق اور محبت سے پُر لہجہ، اعلیٰ اخلاق اور باذوق شخص تھے۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے لوگوں کے دل پہ گھر کر جاتے تھے۔ اکثر مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے، کبھی ترنم کیساتھ اشعار پڑھتے تو کبھی تحت الفاظ سے اپنا کلام پڑھ کر محفل لوٹ لیا کرتے تھے۔

2015ء میں منشی صاحب کا پہلا سرائیکی مجموعہ کلام "اکھیں بھالی رکھو" منظرِ عام پہ آیا، جسکو ادبی اور عوامی حلقوں میں بے حد پزیرائی ملی۔ اردو، سرائیکی اور پنجابی زبان میں شاعری کی اور متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ آپکا کلام لالہ عیسیٰ خیلوی کے علاوہ اعجاز راہی، مراتب علی، احمد نواز چھینہ، شرافت علی، نصیبو لعل، حمیرا چنا اور بھارتی گلوکارہ ہیم لتا نے بھی گایا۔

لالہ عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے منشی صاحب کے جو گیت گاۓ ان کی ترتیب کچھ یوں ہے۔

1. ڈکھی کرکے گیا ہئیں
2. اج وی سانول یار نہ آیا
3. قرار میڈا توں لٹ گھدا اے
4. وے دلبر جانیاں
5. ہتھ ویکھ کے جوگِیا ڈس مینوں
6. کیوں بھلا چھوڑائی اسانکوں
7. ساڈی اکھیاں توں مُکھ نہ لکاؤ جانیاں
8. دنیا توں وکھری اے ٹور تیڈی
9. یاراں دی ہرخوشی توں
10. تمہار پیار بھلاؤں تو (لالہ عطاء اللہ + ہیم لتا)
11. کیوں بھول گئے ہم کو
12. جس نے لوٹا تھا میرا گھر بار


مزید کچھ دوہڑے اور اس کے علاوہ ایک مِلی نغمہ "میرے وطن یہ عقیدتیں اور یہ پیار تجھ پہ نثار کر دوں" جو کہ پہلے لالہ جی نے 14 اگست 1998ء کو پاکستان ٹیلی ویژن پہ گایا اور پھر اسے سانول عیسیٰ خیلوی نے "آپریشن ضربِ عضب" کیلیے بطور سولو سونگ گایا، اس نغمے کی دُھن موسیقار صابر علی نے بنائی۔ یہ ملی نغمہ بیحد مقبول ہوا۔

منشی منظور کے فرزند ذیشان منظور بھی وقتِ حاضر کے اچھے شاعر ہیں۔ سرائیکی اور اردو میں شاعری کرتے ہیں اور اپنے والد صاحب سے محبت اور گہرے لگاؤ کی بناء پہ لّیہ میں ایک ادبی فورم قائم کر رکھا ہے۔ جس کا نام "منشی منظور ادبی فورم" ہے، جس میں مشاعرہ اور دیگر علاقائی اور ثقافتی تقریبات منعقد ھوتی رہتی ہیں۔ دوسرے بیٹے سلطان منظور گائیکی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان دونوں چھوٹے بھائیوں کیلیے دعاگو ہوں کہ اللہ پاک انہیں اوجِ کمال عطا فرماۓ۔ آمین!!

منشی منظور صاحب 28 جنوری 2015 کو 52 سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ پاک سے خصوصی دعا ہے کہ وہ منشی صاحب کی کامل مغفرت اور لواحقین کو صبرِ جمیل سے نوازے امین ثم آمین!!

 

Poet Name:

Mohammad Mahmood Ahmed

Author Name:

Waseem Sibtain

اساں ڈوہاں دا وعدہ ہا جو مرداں تائیں وفا کرسوں!!!
ڈسا  محمود  وعدے  وچ  خیانت پہلے کئیں کیتی!!!

آج ذکر کرتے ہیں ایسے شاعر و ادیب کی جو اپنے لب ولہجہ سے اتنی کم عمری میں ہی بیشمار کامیابیوں کی منازل طے کررہا تھا۔ محمود احمد ہاشمی 45 سال کی عمر میں ہی سرحد حیات کے پار چلے گئے۔ محمد محمود احمد ہاشمی 1969ء میں ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب محمد سلیم رضا قریشی درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔ محمود احمد کو علمی ماحول میسر آیا جس سے ان کے اندر کے ادیب کو آگے بڑھنے کا بھرپور موقع ملا اور وہ کم عمری ہی میں فکر اور شعور کی وہ منازل طے کر گئے جس کے لیے ریاضت اور عمر خضر درکار ہوتی ہے۔

محمود احمد نے اتنی کم عمری میں جتنا طویل سفر طے کیا اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس نے اپنی پرواز کو ہمیشہ بلند رکھا، شاعری کا آغاز اگرچہ اردو میں کیا لیکن انہوں نے اپنی مادری زبان سرائیکی میں بھی شاندار گیت، دوہڑے اور غزلیں لکھیں۔ شروع میں محمود ہاشمی کے نام سے لکھتے رہے، لیکن بعد ازاں انہوں نے ایک نشست میں آئندہ تخلیقات محمود احمد کے نام سے لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تو معروف صحافی ادیب و شاعر صابر عطاء تھہیم نے محمد محمود احمد نام تجویز کیا۔

انہوں نے بے پناہ سرائیکی، اردو، پنجابی، پوٹھوہاری گیت بھی لکھے جن میں سندھ سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ شازیہ خشک نے ’’میڈا رانجھنڑاں‘‘ گایا جسے بےپناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ملک بھر کے مختلف گلوکاروں جن میں فریحہ پرویز، حامد علی خان، شفاء اللہ خان روکھڑی، عطا محمد نیازی، عبدالستار زخمی اور اعجاز راہی نے بھی محمود احمد کا کلام گایا۔ لالہ عیسیٰ خیلوی نے محمود احمد ہاشمی کے 19 گیت گاۓ، سبھی گیت منفرد اور بیمثال تھے۔

محمود احمد کا پہلا گیت ایک پنجابی دوگانہ تھا "موراں ورگیاں ٹوراں" جو کہ لالہ عیسیٰ خیلوی اور ہیم لتا نے پنجابی البم (PMC 62) میں گایا۔ محمود احمد کا پہلا دوہڑہ 1992ء کے البم "گیتاں دی رانی" میں افضل عاجز کے گیت "ڈے خیرات فقیر کوں دل دا بند دروازہ کھول" کے ابتداء میں گایا۔

ایہہ  درد  بھری آواز  میڈی ایہہ سُر  تے لے  انگ تیڈڑے ناں
ایہہ بانسری  گھنگھرو  چمٹا تے ایہہ واجا تے چنگ تیڈڑے ناں
ایہہ بھیم  پہاڑی جوگ ایمن  ایہہ  سندھڑا سارنگ تیڈڑے ناں
محمود دے کولوں جے شئے ہے توں منگ یا نہ منگ تیڈڑے ناں

لالہ عیسیٰ خیلوی نے محمود احمد ہاشمی کے جو گیت گائے وہ درج ذیل ہیں۔
ایہو وظیفہ دل دا (سانول سانول)
ملن دی رات لنگھ گئی اے
روہی دا راجہ جیوی جوانی
میتھوں کلیاں نہ لنگھے جھٹ پاہر
جند میانوالی اے بُت پیاء وسے لاہور
ہک تیڈیاں یاداں ڈنگدیاں ہن
سازاں کوں ناز بخشم
بھولیئے ماۓ نی کملئیے ماۓ
کھول ساقی میخانہ درداں مار مکایا
رب راکھا پردیسی ڈھولا
بلے او بلے چکنے دا چولا
یاقوت ہونٹ تیڈے نیلم دے وانگ اکھیاں
رانجھنڑ وے سدھراں نہ ہوئیاں
ذرا انصاف کر ماہی
میں کلڑی پئی روواں
ہسدے نیں میرے اتے لوک سانولا
اساں پردیس ویندے پئے
توں سوہنڑاں ایں من موہنڑاں
بارشاں دے موسماں وچ
اس کے علاوہ اکیس دوہڑے بھی گائے۔

1995ء میں ان کا پہلا اردو شعری مجموعہ ’’عورت، خوشبو اور نماز‘‘ شائع ہوا، جبکہ دوسرا شعری مجموعہ "واپسی ممکن نہ ہوگی" جو کہ محمود احمد ہاشمی کی وفات کے بعد شائع ہوا تھا۔

محمد محمود احمد ایم اے اردو کرنے بعد محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہو گئے تھے۔ ایک طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان میانوالی پر متعدد پروگرام بھی کرتے رہے جن میں ’’تھل سنگھار‘‘ اور "غزل رنگ" بہت مقبول ہوئے۔ 14اکتوبر 2014ء کو میانوالی کے قریبی قصبہ ماڑی انڈس میں ایک محفلِ مشاعرہ میں شریک تھے کہ شعر پڑھتے ہوئے دل کا دورہ پڑا اور خالقِ حقیقی سے جاملے۔ مرحوم نے سوگواران میں بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ محمد محمود احمد واقعی محبتوں کے شاعر تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو نیا رنگ اور آہنگ دیا۔ ان کی شاعری بھی جھیل کے پانیوں میں شامل ٹھنڈی چاندنی جیسی ہے۔ ساون میں بارش کی ٹھنڈی پھوار جیسی تھی۔ ان کے الفاظ سچے جذبوں پہ لکھا گیا خوبصورت افسانہ ہے!!


"محمود کوں نکھڑاں سال تھئے پر مندڑے ساڈے حال تھئے
دل اج سی ماتم کردا ہِے ، اکھ اج وی اُس کنڑ روندی اے"
اللہ پاک محمود احمد ہاشمی کو ابدی سکون عطا فرماۓ اور ان کے درجات بلند فرماۓ. آمین ثم آمین!!

Poet Name:

Majboor Esa Khelvi

Author Name:

Shahbaz Ahmed Raan

"غلام حیسن" مجبور عیسیٰ خیلوی 

میانوالی کو شعرونغمہ کی سر زمین کہا جاتا ہے.... اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ اس دھرتی کے شاعروں ایسے گیت تخلیق کیئے جن کی بازگشت عالمی سطح پر سنائی دی.... جاپان ٹیکنالوجی کی ایجاد آڈیو کیسٹ نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی آواز کو عالمی سطح تک پہنچا دیا.... عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے عالمی سفر جن شاعروں نے کردار ادا کیا ان میں ایک قابل زکر نام مجبور عیسیٰ خیلوی ہے...

مجبور عیسیٰ خیلوی کا اصل نام غلام حیسن تھا.... پروفیسر ظہور الحسن کی شاعری میں شاگردی اختیار کی تو "ظہور"کے ہم قافیہ لفظ "مجبور" کا تخلص اپنے لئے منتخب کیا.... ایک عرصے تک مجبور ظہوری کے نام سے ملک کے جرائد میں اردو اور فارسی میں انکا کلام شائع ہوتا رہا.... بعد ازاں مجبور عیسیٰ خیلوی کا نام اپنا لیا....

1935 میں عیسیٰ خیل کے گاؤں شیخ محمود والہ میں پیدا ہوئے.... میٹرک عیسیٰ خیل کے بعد 1951 میں گورنمنٹ کالج میانوالی سے ایف اے کیا.... اور کالا باغ کے قریب ماڑی انڈس میں بطور معلم بھرتی ہو گئے.... اور ساتھ ساتھ پرائیویٹ بی اے بھی کر لیا.... شعبہ تعلیم میں دل ناں لگا تو 1956 میں محکمہ ریلوے میں بطور ایس ٹی بھرتی ہو گئے پھر ریل کی پٹڑی کے ساتھ 1993 تک سفر جاری رکھا.... ریٹائرمنٹ کے بعد عیسیٰ خیل میں مستقل سکونت اختیار کی...


زمانہ طالبعلمی سے ہی شعر کہتے تھے طبیعت میں لوک رنگ تھا جو بالآخر سرائیکی گیت نگاری کی طرف لے ہی آیا.... ان دنوں سرور خان نیازی ریڈیو اسٹیشن راولپنڈی کے اسٹیشن ڈائریکٹر تھے انکی خواہش پر نامور گلوکار امتیاز خالق نے راولپنڈی ریڈیو اسٹیشن سے "میانوالی کے گیت" نامی پروگرام شروع کیا.... جس میں میانوالی کے گیت پیش کیئے جاتے.... اس پروگرام میں امتیاز خالق کو مجبور عیسیٰ خیلوی کی بنیادی خدمات حاصل ہوتی تھیں.... آڈیو کیسٹ کی ایجاد کے بعد عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی نے ابتداء میں مجبور ہی کے گانے گائے.... عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی نے سب سے زیادہ مجبور عیسیٰ خیلوی کے ہی لکھے گیت گائے....

1993 میں انکا سرائیکی شعری مجموعہ "لکھیاں لیکھ دیاں" شائع ہوا.... جو کہ اب مارکیٹ میں دستیاب نہیں.... آپ نے مزاحمتی شاعری بھی کی.... میانوالی کے افق پر چمکنے والا چمکدار ستارہ بالآخر 10 فروری 2015 کو غروب ہوگیا...

آخر میں ان کے چند مشہور گیت....
بوڈی چھنگاڑں ڑنگاں ڑنگ
انہاں اکھا دے نال سوہنڑے نیناں دے نال
آوسیاں ساونڑیاں

بوچھنڑا میتھوں یار نا کھس وے
پاماء خاد شاء
پخیر راغلے
چنے نال چانڑی تارے نال لو ماہیا

Poet Name:

Munshi Manzoor Hussain

Author Name:

Waseem Sibtain

آہ !!! ُمنشی منظور حسین!!
ڈُکھی کر کے ٹر گیا ہئیں

سرائیکی پنجابی اور اردو کے منفرد لب ولہجے والا ایک خوبصورت شاعر!!!!
منشی منظور حسین 15 فروری 1963 کو ضلع لیہ میں محمد ابراہیم کے گھر پیدا ہوئے, علم کی لگن آپکی گُھٹی میں شامل تھی اور لگن میں ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی. رزقِ معاش کی تلاش میں سات سال ایک وکیل کیساتھ بطور منشی کام کیا, جب شاعری کی دیوی نے آپکے دل پہ دستک دی اور اشعار آپکے ہونٹوں پہ مچلنے لگے تو باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ اس وقت لیہ میں دو شاعر آپکے ہمنام بھی موجود تھے تو آپ نے "منشی" کو مستقل اپنے نام کا حصہ بنا لیا۔
بہتر سے بہترین کی تلاش میں "محکمہ صحت" میں ملازمت اختیار کر لی. شاعرانہ طبیعت، انتہائ شفیق، محبت پسند، اعلٰی اخلاق اور باذوق انسان تھے۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے لوگوں کے دل پہ راج کرتے تھے۔ اکثر مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ کبھی تحت الفظ اور کبھی ترنم سے پڑھ کر محفل لوٹ لیا کرتے تھے.
پرائیڈ آف پرفارمنس گلوکار عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی نے آپکے کئی گیت گائے جن میں سے چند ایک یہ ہیں.
ڈکھی کرکے ٹر گیا ہئیں
اج وی سانول یار نہ آیا
قرار میڈا توں لٹ گِدا ہے
وے دلبر جانیاں
دنیا توں وکھری اے ٹور تیڈی
ہتھ ویکھ جوگیا دس مینوں
تمھارا پیار بھلاوں تو ہائے مر جاوں
یاراں دی ہر خوشی توں نیلام تھی گے آں
اس دل نے فیصلہ کیتا اے
کیوں بھُلا چھوڑائی اساکوں
ساڈی اکھیاں توں مکھ نہ لکاؤ
کیوں بھول گئے ہم کو
جس نے لُوٹا تھا میرا گھربار
وطن کی محبت میں سرشار ہوکر ایسا ملی نغمہ لکھا جو ہر محبِ وطن کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اس لیے ہر پاکستانی پکار اٹھا۔

میرے وطن! یہ عقیدتیں اور پیار تجھ پہ نثار کر دوں
محبتوں کے یہ سلسلے بے شمار تجھ پہ نثار کر دوں

یہ ملی نغمہ آپریشن ضربِ عضب کیلیے سولو گیت کے طور پہ بھی منتخب ہوا جسے سانول عیسیٰ خیلوی نے گایا تھا، جبکہ سب سے پہلے 14 اگست 1998 میں پی ٹی وی پہ لالہ عیسیٰ خیلوی نے گایا.
آپکی شاعری میں جہاں حُسن وعشق اور ہجر و فراق کا ذکر ہے وہیں لوگوں کو عزت سے جینے اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا درس بھی ملتا ہے, اعلیٰ سوچ و افکار منشی منظور کی شاعری کا جُز رہا ہے۔

ملا ہے  سر  فروشی دا ساکوں  درس  کربل توں
اساں منظور حق سچ ہن الاون چھوڑ نیں سگدے

آپ نے اردو، سرائیکی اور پنجابی زبان میں شاعری کی، آپکو متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ آپکا کلام بہت سے گلوکاروں نے گایا جن میں نصیبو لال، حمیرا چنا، مراتب علی، بشریٰ صادق، اعجاز راہی، شفاء اللہ روکھڑی، نعیم ہزاروی اور احمد نواز چھینہ نمایاں نام ہیں۔ بھارت کی معروف گلوکارہ ہیم لتا نے بھی آپکا کلام گایا۔ 18 جنوری 2015 کو آپکا پہلا سرائیکی مجموعہ کلام "اکھیں بھالی رکھو" منظرِ عام پہ آیا، جسے ادبی اور عوامی حلقوں میں بے حد پزیرائی ملی۔

28 جنوری 2015 کو اچانک خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آپ لیہ شہر کے "یکومنڑ کھگا صاحب" قبرستان میں مدفن ہیں۔ جب بھی کہیں آپکا ذکر چھڑتا ہے تو آپکے چاہنے والوں کے دل سے ہوک نکلتی ہے اور بےساختہ زبان کہہ اُٹھتی ہے۔

ڈکھی کرکے ٹر گیا ہیں

اللہ پاک آپکی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر کی دولت سے نوازے امین!!!

Poet Name:

Prof. Manawer Ali Malik

Author Name:

Waseem Sibtain

پروفیسر محترم منور علی ملک صاحب

استاد ایک روحانی باپ ہوتا ہے وہ معاشرے کا ایک اہم ستون ہے۔ اپنی تخلیقی کارکردگی پہ اپنے طالب علموں میں ایسی روح پھونکتا ہے جس کی بدولت طالب علم سند اور ڈگریاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اپنا مقام بناتا ہے۔ آج ایسے ہی ایک پیارے استاد کے بارے میں بات کرونگا جو نہ صرف استاد ہیں بلکہ ایک شاعر ایک ادیب ایک محقق ہیں بلکہ ایک خوبصورت دل و دماغ رکھنے والے عظیم انسان ہیں۔
ذکر ہے پروفیسر منور علی ملک صاحب کا جو اب تک زندگی کی 79 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ سر منور علی ملک 12 فروری 1941 کو داؤد خیل میانوالی کے اعوان قبیلے میں علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے خاندان کےبیشتر بزرگ شعبہ ء تعلیم سے وابستہ رہے۔ سر منور نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول داؤد خیل سے حاصل کی۔ گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے کیا۔ سنڑل ٹریننگ کالج سے بی ایڈ کیا اور 1965 میں استاد کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ دوران ملازمت انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کی ڈگری لی۔ لیکچرار کی حیثیت سے اُن کا پہلا تقرر گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل میں ہوا۔ وہ میانوالی کالج کے شعبہء انگریزی کے صدر کی حیثیت سے بھی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ 1970 میں ایک جذباتی سانحے نے ان کے اندر کے شاعر کو جگا دیا۔ وہ شعر کہنے کی خداداد صلاحیت سے منور ہیں۔ بعد میں ان کا شعری مجوعہ "جو تم سے نہ کہہ سکا" کے عنوان سے شائع ہوا۔ جس میں حمد باری تعالیٰ، نعت رسول مقبول ؐ، گیت اور غزلیں شامل ہیں۔
عیسیٰ خیل میں تدرسی خدمات کے دوران ان کی دوستی ہمارے ہر دلعزیز لیجنڈ گلوگار لالہ عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی سے ہو گئی اور لالہ جی کی محفلوں کی زینت بنتے رہے۔ لالہ جی نے سر منور کے متعدد گیت اور غزلیں گائیں جو کہ سوپر ڈوپر ہٹ ہو گئیں۔ سر منور نے لالہ جی کے بارے میں "درد کا سفیر" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو اتنی مقبول ہوئی کہ اس کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ سر منور کے لکھے گیتوں نے لالہ جی کو شہرت کی بلندیوں پہ پہنچایا۔

سر منور کی تخلیقات میں ۔۔۔۔
اللہ نہ بھلاوے اے تاں ماھی والی ٹور
ساوی موراکین تے بوٹا کڈھ ڈے چولے تے
چن کتھاں گذاری آئی رات
چھلا پُھل کریہہ اے
اِک خوبرو جوان جو گاؤں کا مرگیا
ساری رات رُنی آں
کملی دا ماھی وے
جے تیڈے وس نہ پئے ھوندے
تارے وی نئیں ڈسدے
آ تیڈے آونڑ دے ویلے آگئے
بیٹھی دیوانی قبراں دے اوھلے
سُنڑ جانی کتھے ونج توں وسیاایں
سچی کہانی ( دوھڑے )
تیڈے کھوہ تے آئیاں
مانڑیں جوانی تے دنیا تے جیوے
میڈا مرضیاں والا ڈھولا
قبر تے لکھ ویساں نئیں سجنڑاں وفا کیتی
نِت دل کوں آھدا ھاں کل ماھی آسی
ولدے پکھیاں آنڑ ڈسایا
ڈیکھ اساڈے حال وے ماھی
تم بھول گئے ھو چن ماھی
لوگ کہتے ھیں کہ گلشن میں بہار آئی ھے
جیسے سُندر سدابہار انمول گیت اور غزلوں کے علاوہ
یہ تیرا چہرہ یہ تیری زُلفیں (نعت)
میرے ھم نشیں تجھے کیا خبر (حمدیہ کلام)
لَالہ جی کا ایک منظوم تعارف اور کئی اشعار بھی سر منور کی تخلیق ہیں۔

سر منور فیس بک پہ میرے استاد بھی ہیں اور میرے والد بزرگوار جیسا پیار اور شفقت بھی دیتے ہیں۔ "میرا میانوالی" کے عنوان سے اُن کی خوبصورت پوسٹیں مجھے بیحد پسند آتی ہیں۔ وہ ان پوسٹوں میں اپنی سحر انگیز تحریر سے پڑھنے والے کے دل و دماغ پہ چھا جاتے ہیں۔ اپنے ہم عصر دوست احباب و افسران، گذرے وقت، انگنت مشاھدات، رنگین موسم، شرارتیں، دیسی کھانے، ماحول، لالہ عیسیٰ خیلوی، غرض یہ کہ ہر موضوع پہ ان کی انگلیاں ٹائپ رائٹر پہ ایک داستان رقم کر رہی ہیں۔ ان کی تحریر کے آخر میں رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔ گذر گئے وہ لوگ ۔۔۔ خوبصورت طرزِ تحریر کا اختتام ہوتا ہے۔

سر منور کے بیٹے امجد علی ملک بھائی اور بھائی علی عمران اعوان گلوکار ہیں جن سے میری فیس بک پہ دوستی ہے۔ بہت ہی اعلی اوصاف کے مالک ان دونوں بھائیوں کیلیے نیک تمنائیں ہیں، آج سر منور کی سالگرہ ہے، اس موقع پہ مجھ حقیر سے بندے کی جانب سے چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ جو سر منور کی شان میں قطعی ناکافی ہیں پیش کیے ہیں۔ میری رب المتعال سے دعا ہے کہ سر منور کا شفقت بھرا ہاتھ ہمارے سر پہ تادیر قائم رہے۔ اللہ پاک سر منور کو صحت و تندرستی والی زندگی عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

سر منور کا ایک شعر سر منور کے نام ۔۔۔
میں اکیلا تو نہیں میرے کئی ساتھی ہیں
آپ کی یاد ہے، غم ہے، میری تنہائی ہے

Poet Name:

Shakir Sujah Abadi

Author Name:

Waseem Sibtain

بس "شاکر" فرق معیاد دا ھِے
میں اَج رونداں توں کل رَوسَیں

شاکر شجاع آبادی کا تعلق شجاع آباد کے ایک چھوٹے سے گاوٗں راجہ رام سے ھے جو ملتان سے ستر 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ شاکر شجاع آبادی 25 فروری 1968 کو پیدا ہوئے۔۔ وہ عصرِ حاضر میں سرائیکی زبان کے نمائندہ شاعر ہیں۔

گزشتہ کئی سالوں سے وہ سرائیکی کے مظلوم عوام کے دلوں کی آواز بنے ہوئے ہیں۔ وہ خود بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں لیکن انہوں نے سرائیکی عوام کی محرومیوں کو اجاگر کر کے ان کو جذبات کی عکاسی کے لیے زبان دی ہے۔ وہ 1986 سے باقاعدہ شاعری کر رہے ہیں۔ نصابی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ کتابیں نہیں پڑھ سکے۔۔ ان کا شاعری سے متعلق تمام علم ریڈیو پروگراموں کا مرہون منت ہے۔ غلام فرید اور وارث شاہ کو انھوں نے بہت سنا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘میرا مسئلہ صرف سرائیکی وسیب نہیں ہے بلکہ میں پوری دنیا کے مظلوم لوگوں کی بات کرتا ہوں چاہے کوئی کافر ہی کیوں نہ ہو۔’’ 1994 تک بول سکتے تھے۔۔ اس کے بعد فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث ٹھیک  طور پر بولنے سے قاصر ہیں۔

کہتے ہیں میں زیادہ سکول نہیں گیا ’’سب کچھ غور کرنے سے اور دنیا کے تجربات سے سیکھا ہے‘‘۔۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ‘‘پاکستان کے زوال کی اصل وجہ وڈیروں کا قابض ہونا اور لوگوں کا ان کے خلاف نہ اٹھنا ہے ۔۔ اگر لوگوں کو شعور دیا جائے کہ ان کی غلامی سے کیسے نکلنا ہے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں‘‘۔۔ موجودہ سیاسی نظام سے وہ متنفر ہیں۔۔ ماضی کے لیڈران میں سے وہ ذوالفقار علی بھٹو کو پسند کرتے ہیں۔۔ جنھوں نے عوام کو حقوق کا شعور دیا۔۔

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک بار انھیں دو لاکھ کا چیک دیا تھا جو انھوں نے اپنے علاقے کے ایک سکول کی عمارت پر لگا دیا۔۔ لیکن سٹاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ سکول بند ہے۔ وہ خود انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اکثر بیمار رہتے ہیں اور روزمرّہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بھی معلوم نہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

انھوں نے اپنی شاعری کی فکر اور فلسفہ کسی کتاب، یونیورسٹی یا عظیم دانشوروں کے افکار و نظریات سے نہیں لیا ۔۔ بلکہ جو انھوں سے دیکھا، سوچا، سمجھا اور جو ان پر بیتا اسے قلم بند کرتے رہے۔

ایک مشاعرے میں جہاں مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء اور پروفیسرز ان کی شاعری سننے کے لیے جمع تھے  تو ان سے پوچھا گیا کہ وہ ان تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان کیا محسوس کر رہے ھیں۔ تو انھوں نے کہا کہ میں بچپن میں پڑھ لکھ کر سائنس دان بننا چاہتا تھا لیکن غربت کی وجہ سے نہ پڑھ سکا۔ جس کا افسوس ہوتا تھا ۔۔ لیکن اب خوشی ہوتی ہے کہ میں غریب کی آواز بنا ہوں اور بہت سے پڑھے لکھے لوگ مجھے سنتے ہیں اور میرے بارے میں لکھتے ہیں۔۔۔

ان کی شاعری زبان کی حدود و قیود کو پھلانگ کر مظلوم قوموں اور پسے ہوئے طبقات کی آواز بن چکی ہے۔ پاکستان کے کونے کونے میں مزدور، کسان، جھونپڑیوں میں رہنے والے اور مذہبی فرسودگی سے تنگ آئے ہوئے لوگ آپ کو شاکر شجاع آبادی کے اشعار گنگناتے ہوئے ملیں گے ۔۔ اور ممکن ہے انھیں یہ بھی علم نہ ہو کہ ان اشعار کا خالق کون ہے۔۔۔۔

ان کی شاعری کا موضوع، غربت، پسماندگی، غیر مساویانہ معاشی تقسیم، بددیانتی اور مذہبی ٹھیکیداروں کی رجعت پسندی ہے۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ ان کی شاعری ان کے ذاتی مسائل خطے کی صورتحال اور سرائیکی بیلٹ کی پسماندگی کا فطری ردِ عمل ہے ۔۔۔ لیکن اپنے طرزِ اظہار کے باعث انھوں نے اپنی شاعری کو عالمی صورتحال سے جوڑ دیا ہے ۔۔ اور جب تک یہ مسائل ہیں ۔۔ اس خطے کے لوگ شاکر شجاع آبادی کو نہیں بھول سکتے ۔۔ ان کی شاعری ان کے مسائل کی عکّاسی کرنے کے ساتھ ساتھ اُن میں تبدیلی کی تڑپ کو زندہ رکھے گی۔۔۔

ان کی شاعری کے کئی مجموعے چھپ چکے ہیں ۔۔ کلامِ شاکر، خدا جانے، شاکر دیاں غزلاں، منافقاں توں خدا بچائے اور شاکر دے دوہڑے ان کے مجموعہ ہائے کلام ہیں۔ ان کے کچھ منتخب اشعار پیش ھے !!!!!
ان کی شاعری کا انتخاب بھی ایک کٹھن مرحلہ تھا ۔۔۔۔ کسی بھی  شعر کو چھوڑنا گراں محسوس ہو رہا تھا۔۔

ان کے کلام سے چند اشعار پیشِ خدمت ھیں
میڈے رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کر ڈے
کہ روٹی رات دی پوری کریندے شام تھیں ویندی
انہاں دے بال ساری رات روندِن بھک تو سؤندے نئیں
جنہاں دی کیئندے بالاں کوں کھڈیندے شام تھی ویندی
میں شاکر بُھک دا ماریا ہاں مگر حاتم توں گھٹ کائی نئیں
قلم خیرات ھے میڈی چلیندے شام تھی ویندی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیئندے کُتےکھیر پیونڑ کیئندے بچّے بُھک مَرنڑ
رزق دی تقسیم تے ہک وار وَل کجھ غور کر
غیر مسلم ھے اگر مظلوم کوں تاں چھوڑ دے
اے جہنمی فیصلہ نہ کر اٹل کجھ غور کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 2 حُور دے بدلے گزارہ ہک تے کر گِھنسوں
71 حُور دے بدلے اساں کوں رج کے روٹی ڈے
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
لالہ عیسیٰ خیلوی نے بھی شاکر شجاع آبادی کے دس (10) دوھڑے اور تین (3) گیت گائے ھیں۔۔۔۔
عشق پوائیاں زنجیراں
تیڈا وطن چھڑیندے پئے ھاں
واہ جو پیار کیتوئی

Poet Name:

Malik Sona Khan Bewas

Author Name:

Waseem Sibtain

آپوں ڈاھڈاں نال وپار ھے میڈا
بےوسؔ دے  ناں  مشہور ھاں

جنابِ محترم بابا جانی عزت مآب ملک سوناخان بےوسؔ صاحب 24 نومبر 1940 کو ضلع بھکر کے قصبے دُلے والا میں پیدا ہوۓ۔ مڈل تک تعلیم حاصل کی اور 1952 میں المیہ شاعری پڑھ کر شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اپنی مادری زبان سرائیکی میں شعر کہنے شروع کیے۔ لالہ عیسیٰ خیلوی کے والد بزرگوار بابا احمد خان نیازی مرحوم کے ساتھ 1963 سے خاص تعلق بنا اور بعد میں جب لالہ جی نے گلوکاری کے میدان میں قدم رکھا تو مصورِغم نے اپنا خوبصورت کلام لالہ جی کو نوازا۔
پہلا دوھڑہ۔۔۔۔۔۔۔ کر ظلم دی بارش پیار اُتے ۔۔۔۔۔ 
1974 میں طارق عزیز شو جو کہ اس وقت ”نیلام گھر“ کے نام سے مشہور تھا اس میں گایا۔ لالہ جی نے بابا جانی کا پہلا گیت روندیاں نیں جگ وچ اکھیاں نیمانڑیاں“ گایا۔

لالہ جی اور بابا جانی کی محبت آج تک قائم و دائم ہے۔لالہ جی نے بابا جانی کا اب تک کا آخری کلام خواجہ غلام فریدؒ کی کافی ”دلڑی لٹی تئیں یار سجنڑ“ میں ہر انترے کے ساتھ دوھڑہ گایا ہے۔ بابا جانی کے 487 دوھڑے اور 82 گیت اور غزلیں لالہ نے گائے ہیں اور ھر گیت ایک شاھکار گیت بنا جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
اللہ دی امان ھووی
بہوں تڑپایا ای ڈھول ناداناں
میڈی بے کسی دا تماشہ بنڑا کے
میکوں اپنڑی لٹی زندگی دا نئیں ارمان
میڈا سوھنڑا ڈھولا کجھ تاں ڈساویں ھا
کیوں تڑپیندائیں ڈس بئی ایماناں
بیدرد سجنڑ کوں ھر ویلے
تیکوں اپنڑا عہدِ وفا یاد ھوسی
آمیڈے دل دی لٹی دنیا کوں جلدا
دلاں دے تاجر او دنیا والو
قسمت چنگی جو ناھی
ڈیکھو عروج والو
لُٹ پُٹ کے سکھ چین ڈکھی دا
انداز اوپرے ھن
برگِ حنا تے ول ول کے ناں
تیڈے کول حسرتاں دی بارات
ناکام کہانی الفت دی
توں خوش وس تیڈا وطن وسۓ
مختار غریب دی زندگی دا
رات ڈینہاں پچھتاندی پئی آں
میڈی ھر خوشی دا قاتل
جو گزریاں واہ واہ گزر گئیاں
اے نئیں سوچا ساڈی غربت
دغا باز سنڑدی ھامی
میڈی محبت میڈی وفا کوں
تیڈے پیار دی ابتداء منگدا راھنداں
اساں رج کے بدنصیب ھاں
جیسے لازوال شاھکار شامل ہیں۔
مصورِغم جناب سونا خان بےوس ایک درویش سادہ لوح خلوص سے پُر ایک میٹھے انسان ہیں۔ اس درویش انسان نے آج تک اپنا قلم نہیں بدلا۔ ان کے گیتوں غزلوں نظموں اور دوھڑوں جہاں ھجر و فراق کے تپتے دنوں کی روشنی اور حرارت ہے وہاں درد و سوز میں پنہاں ٹھنڈی راتوں کی دلگداز چاندنی بھی ہے۔ وہ اپنے ھر مصرعے سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری لاتعداد واقعات، انگنت مشاھدات، بے شمار موسم اور دن اور رات کے بدلنے کا منظر پیش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصور ِغم کا ھر مصرعہ میٹھا اور رسیلا ہے۔ انہوں نے کسی مٹیار کو نچ نچ پیلاں پانے کو نہیں کہا اور نہ ہی چمٹا وجایا۔ نہ ہی کسی صنف نازک کے لب و رُخسار کو اپنی شاعری میں وضع کیا۔ وہ اپنے کلام کو درد کی سیاہی میں ڈبو کر درد بھرے جذبات کی داستاں لکھتے ھیں اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کو اگر مصورِغم جیسے بلند پایہ شاعر نہ نصیب ہوتے تو کبھی وہ ”درد کا سفیر“ نہ بنتے۔ اگر کونج انسانی زبان میں نالہ کناں ہوتی تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ بالکل مصورِغم کے گیتوں اور دوھڑوں میں اپنا درد بیان کرتی۔ ملک سونا خان بے وس ایک شاعر ہی نہیں ایک ادارے کا نام ہے، ایک انسٹیٹیوٹ کا نام ہے، ایک اکیڈمی کا نام ہے۔
آج محترم بابا جانی کا 79 واں جنم دن ہے۔ میری ربِ کائنات سے دعا ہے کہ بابا جانی کو صحت و تندرستی والی زندگی عطا فرماۓ اور ان کا شفیق سایہ  ہمارے سروں پہ قائم و دائم رکھے۔ میں اپنے محترم بھائی شھباز احمد راں کا بھی تہہ دل سے مشکور ہوں۔ جنہوں نے اس تحریر کیلیے میری رھنمائی فرمائی۔ اللہ پاک انہیں بھی جزاۓ خیر دے اور قابل فخر فرزند ہیں جنہیں بابا جانی جیسا شفیق باپ ملا۔ اس پُرمسرت موقع پہ ہمارے گروپ ”اللہ دی امان ھووی“ اور "عطاءاللہ فینز کلب ڈاٹ کوم" کے ایڈمنز اور تمام گروپ ممبران بابا جانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

خزاں تیڈے گلشن دے نیڑے نہ آوے
نسیم ِ  سحر تیڈی  محتاج  راھوے
بہاراں تیڈے  در  تے  ڈیون  سلامی
ایہا ھر  قدم تے دعا  منگدا راھنداں

Ahpoo Dadaan Naal Wapar Eh Meda
Bewas   Day  Naa  Mashoor   Haan

Janab Mohtaram Baba Jani Izat-E-Maab Malik Sona Khan Bewas sahib 24 November 1940 ko distric Bakhkar k qasbay Dulay Wala main paida huay. Middle tak tahleem hasil ki aur 1952 mian almiyeah shahire par kar shahire ka shouq paida hua. Apni Madrhi zuban Sariki main sher kehne surhoo kiyeah. Lala Esa Khelvi k walid bazurgawar Baba Ahmed Khan Niazi Marhoom k sath 1963 sy kash tahalq bana aur badh main jab Lala G nt gulokari k medaan main qadam rakha to Masavre Gham ne apna apna khoobsoorat kalam Lala G ko nawaza.
Pehla Dohra…. “Kar Zulam D Barish Pyar Uthay”… 1974 main Tariq Aziz Show jo k uss waqat “Neelam Ghar” k naam say mashoor tha uss main gayeah.

Lala G ne Baba Jani ka pehla geet “Rondiyaan Ne Jag Wich Akhiyaan Nimanyaan” gayeah.
Lala G aur Baba Jani ki mohabat aaj tak qaim wad aim hai. Lala G ne Baba Jani ka ab tak ka akhri kalam Kawaja Ghulam Fareed ki Kafi “Dilri Lutti Tain Yaar Sajan” main her dohrey k sath dohra gayeah hai. Baba Jani k 487 dohrey awr 82 geet aur ghazlain Lala G ne gayehi hain aur her geet aik shahkar geet bunah. Jin main say chand aik yeah hain.
Allah D Ahman Howay
Bahoon Tarpayeah He Dhol Nadana
Medi Behkasi Da Tamasaha Bana K

Mehkoon Apni Luti Zindagi Da Nahi Arman
Meda Shona Dhola Kuj Taan Disawain Ha
Kyoun Terpainda Ain Das Bayhi Mana
Bedard Sajan Koon Her Vailay

Tehkoon Apna Ehday Wafa Yaad Hosi
Ah Meday Dil Dee Luti Duniyeah Koon Jalda
Dilhaan Day Tajir Oh Duniyeah Walo
Qismat Changi Jo Na He
Daikho Urooj Walo
Lut Put K Sukh Chain Dukhi Da
Andaz Oopray Hin
Bergay Hina Tey Wal Wal K Naa
Teday Kol Hasrataan Dee Barat
Nakam Kahani Ulfat De
Toon Kush Wass Teda Watan Wasay
Mukshtar Gareeb De Zindagi Da
Raat Diyaan Pchantandi Payhi Haan
Medi Her Kushi Da Qatil

Jo Ghuzriyaan Wa Wa Ghuzar Gayiyaan
Eh Nahi Socha Sadi Ghurbat
Dagabaz Sunrdi Hani
Medi Mohabat Medi Wafa Koon
Tayday Pyar Dee Ibtada Mangda Rainda
Ashan Raj K Badnaseeb Haan
Jaisay lazawal shahkar shamil hain.
Masawer-E-Gham Janab Sona Khan Bewas aik dervaish sada lo khaloos say pur aik meethay inshaan hain. Is darvaish inshan ny aaj tak apna qalam nahi badla. Un k Geetoon. Nazmoon aur Dohroon main jahan hijar wa faraq j taptay dinhoon ki roshni aur hararat hai wahan dard-wa-soz main pinahan thandi rahtoon ki dilgadaz chandani b hai. Wo apne her misray say pehchanay jatay hain. Un ki shahiri latadad waqyat, inghusat msuhadat, besamar mousham aur din aur raat k badalne ka manzar paish karti hai. Yeahi waja hai k Masawer-E-Gham ka her misra meeta aur raseela hai. Unhoon ne kisi matyar ko nach nach pehlaan pane ko nahi kaha, na he chimta wajayeah, na he kisi sanfay nazik k lab-wa-rukhsar ko apni shairi main waza kia. Wo apne kalam ko dard ki siyeahi main dabo kar dard barhay jazbat ki dastan likhtay hain aur yeah kehna ghalat nah o gaa ko Attaullah Esa Khelvi ko agar Masawer-E-Gham jaisay baland paya shahair na naseeb hotay to kabi wo “Dard Ka Safeer” no bnty. Agar kounj inshani zuban main nala kana hoti to mai samajta hoon k wo bilkul Masawer-E-Gham k geetoon aur dohroon main apna dard biyaan kerti.
Malik Sona Khan Bewas aik shahair he nahi aik adaray ka nam hai, aik institute ka nam hai, aik academy hai.
Aaj mothram Baba Jani ka 79 janam din hai. Meri Rab-E- kainaat say dua hai ko Baba Jani ko sehat wa tandarishi wali uber Atta farmayeah aur un ka shahfeeq say ahu,aray sarhoon pay qaim wad aim rakhay. Main apni mohtram bahi Shahbaz Ahmed Raan ka b the dil say mashkoor hoon jinhoon ne is tehreer k liyeah meri rehnami farmahi, Allah Pak unhain b Jaza-E-Khair day awr Qabil-E-Fakhar farzand hain jinhain Baba Jani jaisa shafeew baap mila. Is purmasarat moqay pay humaray group “Allah D Ahman Hovi” awr “Attaullahfansclub.com” k Admins aur tamam group memebraan Baba Jani ko kharaj-E-Tehseen paish kertay hain.
Khazan Tayday Gulshan Day Nehray Na Ahway

Naseem Sehar Tedi Mutaj Rahway
Baharan Tayday Dar Te Deywon Salami
Eha Har Qadam Tay Dua Mangda Rahnda