آہ !!! ُمنشی منظور حسین!!
ڈُکھی کر کے ٹر گیا ہئیں
سرائیکی پنجابی اور اردو کے منفرد لب ولہجے والا ایک خوبصورت شاعر!!!!
منشی منظور حسین 15 فروری 1963 کو ضلع لیہ میں محمد ابراہیم کے گھر پیدا ہوئے, علم کی لگن آپکی گُھٹی میں شامل تھی اور لگن میں ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی. رزقِ معاش کی تلاش میں سات سال ایک وکیل کیساتھ بطور منشی کام کیا, جب شاعری کی دیوی نے آپکے دل پہ دستک دی اور اشعار آپکے ہونٹوں پہ مچلنے لگے تو باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ اس وقت لیہ میں دو شاعر آپکے ہمنام بھی موجود تھے تو آپ نے "منشی" کو مستقل اپنے نام کا حصہ بنا لیا۔
بہتر سے بہترین کی تلاش میں "محکمہ صحت" میں ملازمت اختیار کر لی. شاعرانہ طبیعت، انتہائ شفیق، محبت پسند، اعلٰی اخلاق اور باذوق انسان تھے۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے لوگوں کے دل پہ راج کرتے تھے۔ اکثر مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ کبھی تحت الفظ اور کبھی ترنم سے پڑھ کر محفل لوٹ لیا کرتے تھے.
پرائیڈ آف پرفارمنس گلوکار عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی نے آپکے کئی گیت گائے جن میں سے چند ایک یہ ہیں.
ڈکھی کرکے ٹر گیا ہئیں
اج وی سانول یار نہ آیا
قرار میڈا توں لٹ گِدا ہے
وے دلبر جانیاں
دنیا توں وکھری اے ٹور تیڈی
ہتھ ویکھ جوگیا دس مینوں
تمھارا پیار بھلاوں تو ہائے مر جاوں
یاراں دی ہر خوشی توں نیلام تھی گے آں
اس دل نے فیصلہ کیتا اے
کیوں بھُلا چھوڑائی اساکوں
ساڈی اکھیاں توں مکھ نہ لکاؤ
کیوں بھول گئے ہم کو
جس نے لُوٹا تھا میرا گھربار
وطن کی محبت میں سرشار ہوکر ایسا ملی نغمہ لکھا جو ہر محبِ وطن کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اس لیے ہر پاکستانی پکار اٹھا۔
میرے وطن! یہ عقیدتیں اور پیار تجھ پہ نثار کر دوں
محبتوں کے یہ سلسلے بے شمار تجھ پہ نثار کر دوں
یہ ملی نغمہ آپریشن ضربِ عضب کیلیے سولو گیت کے طور پہ بھی منتخب ہوا جسے سانول عیسیٰ خیلوی نے گایا تھا، جبکہ سب سے پہلے 14 اگست 1998 میں پی ٹی وی پہ لالہ عیسیٰ خیلوی نے گایا.
آپکی شاعری میں جہاں حُسن وعشق اور ہجر و فراق کا ذکر ہے وہیں لوگوں کو عزت سے جینے اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا درس بھی ملتا ہے, اعلیٰ سوچ و افکار منشی منظور کی شاعری کا جُز رہا ہے۔
ملا ہے سر فروشی دا ساکوں درس کربل توں
اساں منظور حق سچ ہن الاون چھوڑ نیں سگدے
آپ نے اردو، سرائیکی اور پنجابی زبان میں شاعری کی، آپکو متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ آپکا کلام بہت سے گلوکاروں نے گایا جن میں نصیبو لال، حمیرا چنا، مراتب علی، بشریٰ صادق، اعجاز راہی، شفاء اللہ روکھڑی، نعیم ہزاروی اور احمد نواز چھینہ نمایاں نام ہیں۔ بھارت کی معروف گلوکارہ ہیم لتا نے بھی آپکا کلام گایا۔ 18 جنوری 2015 کو آپکا پہلا سرائیکی مجموعہ کلام "اکھیں بھالی رکھو" منظرِ عام پہ آیا، جسے ادبی اور عوامی حلقوں میں بے حد پزیرائی ملی۔
28 جنوری 2015 کو اچانک خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آپ لیہ شہر کے "یکومنڑ کھگا صاحب" قبرستان میں مدفن ہیں۔ جب بھی کہیں آپکا ذکر چھڑتا ہے تو آپکے چاہنے والوں کے دل سے ہوک نکلتی ہے اور بےساختہ زبان کہہ اُٹھتی ہے۔
ڈکھی کرکے ٹر گیا ہیں
اللہ پاک آپکی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر کی دولت سے نوازے امین!!!
|