فروری 2002 میں لالہ جی کا ایک سپرھٹ البم این ایم سی نے ریلیز کیا۔ یہ ایک نئی کیسٹ کمپنی تھی جس نے لالہ جی کا ایک کراچی پروگرام اور بحریہ ھال کراچی پروگرام بھی ریکارڈ کیا جسے بالترتیب البم نمبر 151، 152 دئیے۔ اس سپر ڈوپر ہٹ البم میں سب سے اہم بات 29 منٹ 52 سیکنڈ کا ایک لاجواب دوھڑوں پہ مشتمل گیت ”آکھے واہ بلوچا بے پرواہ بلوچا تھا“ اس میں محمد محمود ھاشمی، سونا خان بیوس، آڈھا خان، مظہر نیازی، شبیر شاکر، شاکر شجاع آبادی، تنویر شاھد، عبدالرزاق شاھین، اور کچھ شعراء کے دوھڑے شامل تھے۔ خالد قاضی کا لکھا ھوا یہ گیت لالہ جی نے بہت پرسوز انداز میں گایا۔ اس کے علاوہ افضل عاجز صاحب کا ”سوٹ کالا“ بہت خوبصورت گیت تھا۔ اعجاز تشنہ کا گیت “وطناں توں جاونڑ والے” مجبور صاحب کا ”وت رب جانے ملسوں نہ ملسوں“ اور سب سے اعلیٰ اور درد بھری شاعری سے لبریز مصور غم کا گیت ”حسرتاں دی بارات“ نے اس البم کو چار چاند لگا دئیے۔
اس البم کی کمپوزیشن صابر علی، افضل عاجز، شبیر شاکر، اعجاز تشنہ اور استاد امیر نے کی۔ وتہ خیل کے لیاقت بھائی اس البم کے معاون خصوصی تھے۔ البم کور پہ لالہ جی خوبصورت تصویر کے ساتھ ”بلوچا“ اور ”وطناں توں جاون والے“ ٹائٹل گیت لکھے گئے۔ گیتوں کی ترتیب شروع کے البم کور میں تھوڑی اوپر نیچے رہی۔ مجبور صاحب کے گیت ”وت رب جانے ملسوں“ کے آگے مصور غم کا نام اور حسرتاں دی بارات کے آگے مجبور صاحب کا نام۔ لیکن بعد میں اس کیلیے جناب سونا خان بیوس سے فون پہ بات کرنے کا شرف ھوا جنہوں نے اس کی تصیح فرما دی۔ این ایم سی کے جناب حمید اللہٰ خان صاحب کو مطلع کیا گیا جنہوں نے البم کور پہ اسے ٹھیک کروا دیا اور ممکن ہے کئی اور دوستوں نے بھی اس غلطی کی نشاندہی کر کے متعلقہ کمپنی کے افراد کو مطلع کیا ہو گا۔ اس البم کی تیاری میں تنویر شاہد صاحب اور سرائیکی سر سنگت میانوالی کے ساتھ ساتھ کراچی لاھور اور دوسرے شہروں کے میوزک اداروں نے تعاون کیا۔ عیسیٰ خیلوی سٹوڈیو میں اس کی ریکارڈنگ ہوئی۔ ایک سے بڑھ کر ایک گیت اور اعلیٰ سے اعلیٰ دوھڑہ اس البم میں شامل ہے۔ سننے والے پہ سحر طاری ہو جاتا ہے اور مجھے تو حسرتاں دی بارات نے کئی بار رلایا ہے۔ اس گیت کا درد اور اس پہ کمپوزیشن ۔۔۔ اف ۔۔۔۔ کمال کی تخلیق ہے۔
|